باقی صدیقی…. ایک ہمہ جہت شخصیت
باقی صدیقی کا اصل نام محمد افضل قریشی تھا ۔ آپ ۰۲ دسمبر ۸۰۹۱ءکو راولپنڈی میں جرنیلی سڑک پر واقع اپنے آباءکے گاﺅں سہام میں پیداہوئے۔ ابتدائی مذہبی تعلیم گھر پر حاصل کی ، راولپنڈی کی قدیم اور تاریخی درسگاہ ڈینیز ہائی سکول سے دسویں جماعت پاس کرکے سہام کے پہلے میڑیکیولیٹ بنے۔
اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں مدرسی سے لے کر نگارخانی بھی کی دفتری ملازمتیں بھی کیں لیکن آخرکار اپنے من پسند شعبے شعر وادب سے ایسے منسلک ہوئے کہ دم آخر اسی سے وابستہ رہے۔ جس طرح ا نسان کے نام کا اثر اس کی شخصیت پر بھی ہوتاہے اسی طرح باقی صدیقی اپنے اصل نام افضل کی طرح اپنے ہم عصر وں میں اپنی شخصیت کے حوالے سے بھی افضل تھے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے کردار وافعال میں بھی افضل تھے۔
اسی طرح شاعری میں بھی شاعر کا تخلص اس کی شاعری کا آئینہ دار ہوتاہے ۔ باقی صدیقی کے تخلص کے پس منظر میں محترم جمیل یوسف اس طرح اظہارخیال کرتے ہیں کہ: ” باقی صدیقی اردو غزل کے دلپذیر شیوہ گفتار اور اس صنف سخن کی سحر انگیز خوبی ¿اظہار کی باقیات میں سے تھے۔
ان کے طرزکلام کے اس پہلو کی کچھ مناسبت ان کے تخلص سے ضرور تھی “۔ اپنی شاعری کی ابتدا انہوں نے ”افضل سہامی “ کے قلمی نام سے پنجابی پوٹھوہاری بیتوں سے کی ا ور انہوں نے مختلف ادوار میں خاور، ناوک اور فانی کے قلمی ناموں کو بھی برتا آخرکا ربہت سوچ بچار اور دل ودماغ کے اطمینان کے بعد ”باقی “ اختیار کیا۔
چونکہ ان کی اٹھان خالص مذہبی ماحول میں ہوئی تھی اور نیک والدین کے فیضان نظر سے ان کے قلب وذہن پاکیزگی اورنیک اطوار سے مزین تھے اس لیے اس لفظ سے بھی انہیں یہ شک گزرا کہ کہیں یہ شرک کے زمرے میں نہ آتاہو۔
انہوں نے اپنی غزلیں جناب احمد ندیم قاسمی کو اس تحریر کے ساتھ بھیجیں کہ میں نے اپنا تخلص بھی بدل لیاہے اور فانی رکھ لیاہے کیونکہ باقی تو صرف خداوند تعالیٰ کی ذات بابرکات ہی ہے ۔ جناب احمد ندیم قاسمی کہتے تھے کہ میں ان کے اس استدلال سے دم بخود رہ گیا جواباً خط میں لکھا کہ ، ” خدا کے اسماءمیں ایک اسم غالب بھی ہے تو کیا غالب نے خدا سے ڈر کر مجبوریا محکوم تخلص کرلیاتھا؟ جولوگ عبدالقادر کو قادر صاحب کہتے ہیں یا عبدالقیوم کو قیوم صاحب کہتے ہیں توکیا یہ خدائی دعوے کے گنہگار ہیں۔
میں نے عاجزی سے انہیں سمجھایا کہ آپ باقی ہی رہیے جبکہ فانی کے تخلص کو فانی بدایونی غیرفانی کرگئے ہیں ۔ باقی صاحب نے ان کے مشورے پر باقی کے تخلص کو ہی برقرار رکھا اور شاید اسی نام کا اثر ہے کہ آج اکاون سال گزرنے کے باوجود ان کا نام اسی طرح تابندہ وفروزاں ہے۔
وہ ذاتی طور پر موجود تو نہیں لیکن ان کے لکھے اور کہے ہوئے الفاظ ان کے ہونے کی گواہی دے رہے ہیںاور نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت اور مغربی وعربی ممالک میں ان کے چاہنے والے موجود ہیں اور باقی صاحب پر اپنی محبت اور التفات کے پھول نچھاور کرتے رہتے ہیں۔
وزیرآباد حملے کی تحقیقات کیلئے قائم جے آئی ٹی کیساتھ تعاون نہیں کیا جا رہا‘فواد چودھری
بقول جناب جمیل یوسف ، ” یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ بعض شعراءکے تخلص میں ان کی شاعری کی قدروقیمت کا پرتو موجودہوتاہے ۔ میرتقی میر کو سب اردوشاعری کا میرکارواں تسلیم کرتے ہیں ۔ غالب کا غلبہ آج تک اردو شعروسخن کی سلطنت پر قائم ہے اور دنیا میں اقبال کا اقبال بلند ہورہا ہے اسی طرح باقی صدیقی کا تخلص اس امر کی نشاندہی کرتاہے کہ ان کا نام اور کام باقی رہے گااور ان کے کلام کی عظمت کو بقائے دوام حاصل ہوگا۔ جوں جوں اہل ذوق اس کو پڑھیں گے اور اہل نظر اس کاجائزہ لیں گے ان کے فن کی سچائی ان پر منکشف ہوتی چلی جائے گی“۔ چونکہ زیادہ لوگ شاعر اور ادباءحضرات کو ان کے قلمی ناموں سے جانتے ہیں اس لیے باقی صدیقی کے اس قلمی نام کو اختیار کرنے سے بعض لوگوں کو یہ شا ئبہ ہواکہ وہ خاندانی لحاظ سے صدیقی قریشی ہیںلیکن یہ بات زیادہ لوگوں کونہیں معلوم کہ وہ سہام کے قریشی ہاشمی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا سلسلہ نسب حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ملتاہے اور صدیقی کا لاحقہ انہوں نے خلیفہ¿ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قلبی نسبت کی وجہ سے اختیارکیا تھا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے خونی نسبت رکھنے والے برصغیر پاک وہند کے اس بے مثال اور باوقار شاعر باقی صدیقی کو شہرت اسی قلمی نام سے ہی ملی ۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ راولپنڈی کے بیابان و اجاڑ دیہات سہام میں پیدا ہونے والے اس انسان کی شہرت یہاں سے ہوتی ہوئی بمبئی کے نگارخانوں میں بھی پہنچ جائے گی اور لوگ ان کی بڑی بڑی تصاویر نگارخانوں کے باہر آویزاں دیکھیں گے۔ باقی صدیقی خاندانی جاگیرداری کوچھوڑکر اپنی دنیا خود پیدا کرنے کی دھن لے کر نکلے ۔ زندگی کے کامختلف نشیب و فراز سے گزرنے کے بعد شعر وادب کی طرف راغب ہوکر امر ہوگئے ۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام،” جامِ جم“ قیامِ پاکستان سے بھی پہلے لاہور سے ۴۴۹۱ءمیں مکتبہ دانش نے شائع کیا۔ دوسرا ”دارورسن‘ ‘ ۱۵۹۱ءمیں راولپنڈی سے ، ”زخمِ بہار“ ۱۶۹۱ءمیں لاہور سے جبکہ پوٹھوہاری پنجا بی شا عری پر مبنی کلام ۸۶۹۱ءمیں لاہور سے ہی مکتبہ شاہ حسین نے شائع کیا۔ادبی تحریک راولپنڈی کے توسط سے ان کا آخری مجموعہ” کتنی دیر چراغ جلا“ ۷۷۹۱ءمیں ان کے انتقال کے بعد منظرعام پر آیا۔ باقی صدیقی کا تعلق چونکہ ایک مذہبی گھرانے سے تھااور زندگی بھر صوم وصلوة کے پابند رہے اور اپنے ہمعصروں کی صحبت کے باوجود اپنے آپ کو ان کی روشوں اورآلائشوں سے اپنے آپ کو داغدار نہ کیااور پاکیزہ زندگی بسرکی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بے انتہا عقیدت اور محبت تھی اور اس کا نذرانہ اپنے مجموعہ کلام زادِسفر پیش کرکے کیا۔ ان کی حمد اور نعتوں پر مشتمل یہ شاہکار راولپنڈی ادبی تحریک کے ہی وسیلے سے۴۸۹۱ءمیں منظرعام پر آیا۔باقی صدیقی کی شعر وادب کے میدان میں ان کی عظمت کا اندازہ لگانے کے لیے تحریک پاکستان کے نامور کارکن، محقق اور ممتاز شاعر ادیب جناب جمیل الدین عالی یہ شعر ہی کافی ہے کہ :
باقی ! جس کی غزلیں اس کے نام کے روپ دکھائیں ۔۔۔۔ ہائے رے پنڈی والو ! اس سے کیا کیا بوجھ اٹھوائیں
باقی صدیقی پر مذہبی رنگ کے ساتھ ساتھ وطن سے محبت بھی بہت شدت سے جاگزیں تھی ، اسی جذبے کے تحت انہوں نے اپنی شاعری میں اپنے وطن کو خراج تحسین پیش کیا ۔ ۵۶۹۱ءاور ۱۷۹۱ءکی جنگوں کے دوران ان کے لکھے ہوئے گیت اور ملی نغمے ریڈیو پاکستان راولپنڈی سے نشرہوتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ کشمیر کی تحریک آزای سے بھی ان کی دلی وابستگی تھی ۔ وطن سے محبت اس طور پر ان گاگزیں تھی کہ سقوط مشرقی پاکستان پر دل گرفتہ تھے اور یہ بات ریڈیو پاکستان راولپنڈی کے ایک اہلکار جناب ریاض مرزا مرحومنے خود مجھے بتائی کہ جس دن مشرقی پاکستان کا سقوط ہوا اس دن دفتر کے صحن میں ایک طرف درخت کے ساتھ کھڑے دیکھا کہ زاروقطار روئے چلے جارہے ہیں ، پوچھا کہ باقی صاحب کیاہوا ، کہنے لگے ، یار مرزا ! مشرقی پاکستان نے وہ دکھ دیاہے کہ اب کوئی غیرت مند جی ہی نہیں سکتا۔ وطن عزیز کے دولخت ہونے کے اس دلخراش سانحے کے بعد ان کی طبیعت نہیں سنبھلی اوربائیس دن بعد وہ اپنے وطن کی محبت والفت کو سینے سے لگائے ۸ جنوری ۲۷۹۱ءکو منوں مٹی کے نیچے اتر گئے اور اپنی ذات اپنی محبت اپنے عزیز ازجاں وطن پر نچھاورکردی۔ ان کے انتقال پرملال پر اردو کے معروف شاعر سید علی عباد نیساں اکبر آبادی نے انہیں یوں خراج تحسین پیش کیا۔
جس کو سب کہتے تھے باقی آج فانی ہوگیا ۔۔۔۔۔ تھا جو کم آمیز اور گوشہ نشین وکم سخن
شاعر خوش گو غزل کے رنگ میں تھا منفرد ۔۔۔۔۔ جس کو اردو سے تھی الفت جس کو اردو سے لگن
ہاتف غیبی کی میرے کان میں آئی صد ا ۔۔۔۔۔۔ خلد میں دیکھئے وہ باقی ¿ رنگین سخن
Baqi Saddiqui News In Urdu ,Pakistan News In Urdu.https://www.youtube.com/watch?v=Arijm5wWXeY