تھیلیسیمیا کی بیماری پر قابو پانے کی احتیاطی تدابیر
تھیلیسیمیا کی بیماری کے خطرات نقصانات، بیماری پر قابو پانے کی احتیاطی تدابیر علاج اور دیگر طبی مسائل پر آگاہی کے لئے کیئر سینٹر میں سیمینار
تھیلیسیمیا ایک مورثی بیماری ہے یہ والدین کی جینیاتی خرابی کے باعث اولاد کو منتقل ہوتی ہے. اس بیماری کی وجہ سے مریض کے جسم میں خون کم بنتا ہے، مقررین
کمزور اور بیمار چہرے والے یہ بچے کھیل کود اور تعلیم دونوں میدانوں میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور معاشرے میں صحیح مقام نہ پانے کی وجہ سے خود اعتمادی سے محروم ہوتے ہیں
بدین (آواز نیوز) تھیلیسیمیا کیئر سینٹر بدین میں تھیلیسیمیا کی بیماری کے خطرات نقصانات، بیماری پر قابو پانے کی احتیاطی تدابیر علاج اور دیگر طبی مسائل پر آگاہی اور گفتگو کے سلسلہ میں منعقد سیمینار میں طبی ماہرین کا لیکچر۔منو بھائی تھیلیسیمیا کئیر سینٹر میں منعقد سیمنار میں ڈپٹی کمشنر بدین آغا شاہ نواز خان اسسٹنٹ کمشنر محمد یونس رند خون جگر تھیلیسیمیا کی بیماری کے علاج کے ماہر ڈاکٹروں سمیت ڈاکٹروں کاروباری شخصیات شہریوں صحافیوں کے علاوہ تھیلیسیمیا کی بیماری میں مبتلہ بچوں اور ان کے والدین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
Thalassemia major treatment in pakistan in urdu Youtube
اس موقع پر تھیلیسیمیا خون جگر کی بیماری کے آغا خان ہسپتال ل کی معروف ڈاکٹر بشری جمیل طبی ماہرین ڈاکٹر کاشف اقبال ڈی ایچ او بدین ڈاکٹر فاروق لغاری ڈاکٹر ہارون میمن ڈاکٹر محبوب خواجہ نے سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھیلیسیمیا ایک مورثی بیماری ہے یہ والدین کی جینیاتی خرابی کے باعث اولاد کو منتقل ہوتی ہے.
اس بیماری کی وجہ سے مریض کے جسم میں خون کم بنتا ہے۔جنیاتی اعتبار سے تھیلیسیمیا کی دو بڑی قسمیں ہیں جنہیں الفا تھیلیسیمیا اور بی ٹا تھیلیسیمیا کہتے ہیں۔ نارمل انسانوں کے خون کے ہیمو گلوبن میں دو الفا اور دو بی ٹا زنجیریں ہوتی ہیں۔
مرض کی شدت کے اعتبار سے تھیلیسیمیا کی تین قسمیں ہیں شدید ترین قسم تھیلیسیمیا میجر کہلاتی ہے اور سب سے کم شدت والی قسم تھیلیسیمیا مائینر کہلاتی ہے اور درمیانی شدت والی قسم تھیلیسیمیا انٹرمیڈیا کہلاتی ہے۔
ایک طرح کا تھیلیسیمیا کبھی بھی دوسری طرح کے تھیلیسیمیا میں تبدیل نہیں ہو سکتا. ماہرین نے کہا تھیلیسیمیا مائینر کی وجہ سے مریض کو کوئی تکلیف پریشانی یا شکایت نہیں ہوتی نہ اس کی زندگی پر کوئی خاص اثر پڑتا ہے ایسے لوگ کیریئر کہلاتے ہیں۔
علامات و شکایات نہ ہونے کی وجہ سے ایسے لوگوں کی تشخیش صرف لیبارٹری کے ٹیسٹ سے ہی ہو سکتی ہے۔ ایسے لوگ نارمل زندگی گزارتے ہیں مگر یہ لوگ تھیلیسیمیا اپنے بچوں کو منتقل کر سکتے ہیں۔
تھیلیسیمیا مائینر میں مبتلا بیشتر افراد اپنے جین کے نقص سے قطعا لاعلم ہوتے ہیں اور جسمانی، ذہنی اور جنسی لحاظ سے عام لوگوں کی طرح ہوتے ہیں اور نارمل انسانوں جتنی ہی عمر پاتے ہیں۔ تھیلیسیمیا مائینر میں مبتلا خواتین جب حاملہ ہوتی ہیں تو ان میں خون کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔
سائنو ویک اومیکرون کے خلاف ویکسین کا نیا ورژن پیش کرنے کیلئے تیار ہوگئی
کسی کو تھیلیسیمیا میجر صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب اس کے دونوں والدین کسی نہ کسی طرح کے تھیلیسیمیا کے حامل ہوں۔تھیلیسیمیا میجر کے مریضوں میں خون اتنا کم بنتا ہے کہ انہیں ہر دو سے چار ہفتے بعد خون کی بوتل لگانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔
ایسے بچے پیدائش کے چند مہینوں بعد ہی خون کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کی بقیہ زندگی بلڈ بینک کی محتاج ہوتی ہے۔ کمزور اور بیمار چہرے والے یہ بچے کھیل کود اور تعلیم دونوں میدانوں میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور معاشرے میں صحیح مقام نہ پانے کی وجہ سے خود اعتمادی سے محروم ہوتے ہیں۔
بار بار خون لگانے کے اخراجات اور ہسپتالوں کے چکر والدین کو معاشی طور پر انتہاءخستہ کر دیتے ہیں جس کے بعد نامناسب علاج کی وجہ سے ان بچوں کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ مقررین نے کہا ترقی یافتہ ممالک میں بہترین علاج کے باوجود یہ مریض 30 سال سے 40 سال تک ہی زندہ رہ پاتے ہی جبکہ پاکستان میں ایسے مریضوں کی عمر لگ بھگ دس سال ہوتی ہے۔
اگر ایسے بالغ مریض کسی نارمل انسان سے شادی کر لیں تو ان کے سارے بچے لازما تھیلیسیمیا مائینر کے حامل ہوتے ہیں. ڈاکٹر کا کہنا تھا اگر والدین کسی بھی قسم کے تھیلیسیمیا کے حامل نہ ہوں تو سارے بچے بھی نارمل ہوتے ہیں۔
اگر والدین میں سے کوئی بھی ایک تھیلیسیمیا مائینر کا شکار ہو تو ان کے 50 فیصد بچے تو نارمل ہوں گے جبکہ بقیہ 50 فیصد بچے تھیلیسیمیا مائینر میں مبتلا ہوں گے۔ یعنی یہ ممکن ہے کہ ایسے کسی جوڑے کے سارے بچوں کو تھیلیسیمیا مائینر ہو یا چند بچوں کو ہو یا کسی بھی بچے کو نہ ہو۔
اگر دونوں والدین تھیلیسیمیا مائینر کا شکار ہوں تو 25 فیصد بچے نارمل، 50 فیصد بچے تھیلیسیمیا مائینر میں مبتلا جبکہ 25 فیصد بچے تھیلیسیمیا میجر میں مبتلا ہوں گے. اگر والدین میں سے کوئی بھی ایک تھیلیسیمیا میجر کا شکار ہو تو ان کے سارے کے سارے بچے تھیلیسیمیا مائینر میں مبتلا ہوں گے۔
ڈاکٹر نے اس موقع احتیاطی تدابیر پر زور دیتے ہوئے کہا تھیلیسیمیا مائینر یا میجر کے افراد کی آپس میں شادی نہیں ہونی چاہیے۔ جن خاندانوں میں یہ مرض موجود ہے ان کے افراد کو اپنے خاندان میں شادی نہیں کرنی چاہئے. اگر ایسے افراد شادی کر چکے ہوں تو وہ بچے پیدا کرنے سے پہلے ماہرین سے ضرور مشورہ کریں۔
اگر ایسے افراد شادی کر چکے ہوں اور حمل ٹھہر چکا ہو تو حمل کے دسویں ہفتے میں بچے کا تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ کروایں۔ڈاکٹرز نے کہا تھیلیسیمیا ایک جینیاتی بیماری ہے اور یہ ساری زندگی ٹھیک نہیں ہوتی۔اگر خون کی کمی ہو تو تھیلیسیمیا مائینر کے حامل افراد کو روزانہ ایک ملی گرام فولک ایسڈ کی گولیاں استعمال کرتے رہنا چاہیے تاکہ ان میں خون کی زیادہ کمی نہ ہونے پائے۔ خواتین میں حمل کے دوران اس کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔
ڈاکٹرز نے کہا بی ٹا تھیلیسیمیا میجر میں مبتلا افراد کو ہر دو سے چار ہفتوں کے بعد خون چڑھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایک بوتل خون میں تقریبا 250 ملی گرام لوہا موجود ہوتا ہے جسے انسانی جسم چار ہفتوں میں پوری طرح خارج نہیں کر سکتا۔ بار بار خون کی بوتل چڑھانے سے جسم میں ایرن کی مقدار نقصان دہ حد تک بڑھ جاتی ہے اور اس طرح حیموسیڈریس کی بیماری ہو جاتی ہے جو دل اور جگر کو بہت کمزور کر دیتی ہے۔
اس لیے بار بار خون لگوانے والے مریضوں کو جو دوائیں استعمال کرنی پڑتی ہیں جو جسم سے زائید ایرن خارج کر دیتی ہیں۔ جسم سے آئرن کم کرنے کے لیے کھانے کی گولیاں بھی دستیاب ہیں مگر وہ بہت مہنگی اور مریض کی قوت خرید سے انتہائی زائد ہیں. اور قیمتی ادویات اور مہنگا علاج سرکاری اور غیر سرکاری ملکی اور غیر ملکی اداروں خدا ترس کاروباری اور مخیر افراد کی مالی مدد تعاون خون کے عطیہ سے ہی جاری ہے۔