پاکستان

ڈیم بننے میں رکاوٹ کون

تحریر: ڈاکٹر صباحت علی خان

اس سال پاکستان میں سیلابی صورت میں جو مصیبت آئی ہے اس سے ملک میں تباہی تو آئی ہی ہے ساتھ میں مہنگائی نے بھی سابقہ ریکارڈ توڑے ہیں، گو کہ متعقلہ محکموں نے خبردار کیا تھا مگر حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی جوڑ توڑ سے ہی فرصت نہ تھی لہذا اس آفت سے نمٹنے کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہ کی گئی۔

منصوبہ بندی سے بھی تباہی کو مکمل طور پر تو نہیں روکا جا سکتا تھا مگر اس کو کم کیا جا سکتا تھا جس کی کوشش نہیں کی گئی۔اس تباہی کا اصل حل تو کالا باغ ڈیم ہی ہے لیکن وطن کے دوست نما دشمن یہ تباہی دیکھنے کے باوجود کالا باغ ڈیم کی تعمیرکے خلاف رکاوٹ بن کر کھڑے ہیں۔

حالانکہ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر وہی صوبے ہوئے ہیں جو ڈیم کی تعمیر کے خلاف ہیں،اگر دیم بن جاتا تو ملک مین اتنی آفت نہ آتی، نقصان بے حد کم ہوتا اور ملک میں پانی اور بجلی کی قلت کا مسئلہ بھی حل ہوتا، زراعت بڑھتی، صنعتیں چلتیں، مہنگائی کم ہوتی اور برآمدات بڑھتیں جس سے ملک خوشحال ہوتا،جو ہمارے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو گوارا نہیں ہے۔

اور ہمارے نادان دوست مختلف مفادات کے تحت دانستہ طور پر ان کے ہاتھوں اتعمال ہو رہے ہیں، حالانکہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے کسی کو نقصان نہین ہوگا الٹا فائدہ ہی فائدہ ہے، بھارت میں اگر کوئی ایسے منصوبے کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے تو نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے، کچھ نے اسے عذاب الہی سے بھی تعبیر کیا۔

گو ہمارے اعمال ایسے ہیں کہ ہم پر اس سے بھی بڑا عذاب آنا چاہئے تاکہ ہماری آنکھیں کھل سکیں لیکن کیا وہ غریب ہی سب سے زیادہ گناہ گار تھے جو متاثر ہوئے ، برے گناہ گار تو بلکل محفوظ رہے، اس لئے یہ ؑؑؑعذاب نہیں ہماری نا اہلی ہے۔یہی پانی سٹور ہو سکتا تھا اور ہمیں اربوں کا فائدہ ہوتا اور تباہی بھی نہ ہوتی، مگی یہاں ملکی مفاد سے زیادہ ذاتی مفادات دیکھے جاتے ہیں۔

بعض جگہوں پر جاگیرداروں، سیاستدانوں،ودیروں اور پیروں نے اپنی فصلیں بچانے کے لئے بند نہ تورنے دئیے اور غریبوں کی فصلیںتباہ کر دیں، کئی دیہات صفحہءہستی سے مٹ گئے او رجو بچ گئے ہیں وہ عشروں تک سابق پوزیشن پر بحال نہ ہو سکیں گے۔جب ملک کے نصف حصے پر قیامت صغری برپا تھی تو حکومت و اپوزیشن جلسے جلوسوں میں مصروف تھے۔

ایسے میں سول سوسائٹی ہی میدان میں آئی اور اپنے تباہ حال بہن بھائیوں کے لئے وسیلہ بنی، اس مین سب سے نمایاں کردار مذہبی تنظیموں خصوصا جماعت اسلامی کی الخدمت فاوندیشن نے ادا کیا، دیگر مذہبی تنظیموں اور مساجد و مدارس نے بھی ذاتی اور اجتمائی ہر دو صورتوں میں امدا و تعاون کا حق ادا کیا اور کر رہے ہیں، مفتی تقی عثمانی صاحب نے تباہ حالوں کے لئے سو گھر بنا کر دینے کا اعلان کیا۔

لیکن موم بتی مافیا کہیں نظر نہیں آیا جو بلی کی موت پر بھی جلسے کئے بنا نہیں رہتے، اسکے علاوہ حکومت یا اپوزیشن کے کسی سیاستدان یا جاگیرداروں، وڈیروں یا پیروں میں سے کسی نے بھی ذاتی حثیت میں مدد کا کوئی اعلان نہیں کیا، غریبوں نے ہی غریبوں کی مدد کی۔

عمران خان نے فون پر بیرون ملک پاکستانیوں سے اپیل کی جنہوں نے کروڑوں روپے میں امداد کا وعدہ کیا جو کتنا وفا ہوتا ہے، یہ رب ہی جانتا ہے۔ ان کی دیکھا دیکھی بلاول نے بھی اپیل کی، اور لوگوں سے امداد کے وعدے لئے۔ حکومت نے سیلاب زدگان کی بحالی کے لئے گنڈ قائم کیا، اس میں بھی ڈیم فنڈ کی طرح غربا ہی دس یا زائد روپے جمع کرائیں گے، اور ملازمین کی ایک دو دن کی تنخواہ کاٹی گئی۔

خود ان کو بھی توفیق نہیں ہوئی۔فنڈ کے معاملے میں تو عوم حکومتوں کے ماضی کو دیکھتے ہوئے اعتبار نہیں کر رہی لیکن تنخواہ کٹوتی سے بھی کافی رقم جمع ہوئی اور اگر مستحقین تک پہنچ گئی تو یقیننا فائدہ ہو گا، اسلئے دعا ہی کی جا سکتی ہے۔کیونکہ حسب سابق بیرونی ممالک سے آنے والا سامان بازارون میں بھی بک ریا ہے۔

اس بحران کے دوران جہاں انسانیت کے قابل رشک اور تقلید مظاہرے دیکھنے میں آئے جہاں چندہ مانگنے والے بچوں نے سیلاب فنڈ میں پیسے جع کرائے وہیں کچھ ناخوشگوار واقعات بھی پیش آئے جب ڈاکووں نے امدادی کیمپ اور ٹرک لوٹ لئے اور ملک بھر میں ڈکیتیاں شروع ہو گئیں۔

پانچ نوجوان جو سیلاب مین پھنس گئے تھے وہ پانچ گھنٹے سوشل میڈیا پر دہائی دیتے رہے پوری دنیا کو خبر ہو گئی مگر جو امداد کر سکتے تھے وہ لاتعلق ہو کر بیٹھے رہے، اور نوجون ڈوب گئے۔۔ جہاں سفاکی کے مظاہرے دیکھے گئے وہیں چشم فلک نے یہ مناظر بھی دیکھے کہ عوام اور امدادی کارکن دوسروں کو بچاتے ہوئے خود اپنی جانیں ہار گئے۔سندھ سرکار کا کہنا ہے تھا۔

کہ مکمل طور پر پانی نکالنے میں چھ ماہ لگ سکتے ہیں اور مذید چھ ماہ عوام کو آباد کرنے مین لگ جائیں گے اور اتنے مین پھر سیلاب آ جائے گا کیونکہ ڈیم تو کسی نے بننے نہیں دینا اور اداروں نے آئیندہ اس سے زیادہ بارشوں کی پیش گوئی کر دی ہے ۔بھارت اب تک ہزاروں ڈیم بنا چکا ہے اور سینکڑوں بن رہے ہیں۔

روز ویلیٹ ہوٹل اور ڈیفالٹ

جب وہ سارے بن جائیں گے تو ہمیں پانی صرف سیلاب کی صورت ہی ملے گا یا بھارت جب ہمیں ڈبونا چاہے گا۔

Dr. Sabahat Ali Khan Column | Obstacle to building a dam? | Whose Project is Diamer Bhasha Dam actually? | Details by Ameer Abbas

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button