پاکستان

الیکشن ٹریبونلز بنانا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، پہلے بھی لاہور ہائیکورٹ نے انتخابی عمل روکا تھا، چیف جسٹس

 کیا پاکستان میں ہر چیز کو متنازعہ بنانا لازم ہے ؟ انتخابات کی تاریخ پر بھی صدر مملکت اور الیکشن کمیشن میں تنازعہ تھا، رجسٹرار ہائیکورٹ کی جانب سے خط کیوں لکھے جا رہے ہیں،

چیف جسٹس اور الیکشن کمشنر بیٹھ جاتے تو تنازعہ کا کوئی حل نکل آتا، بیٹھ کر بات کرتے تو کسی نتیجے پر پہنچ جاتے، کیا چیف جسٹس اور الیکشن کمیشن کا ملنا منع ہے ؟ کیا کوئی انا کا مسئلہ ہے۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے تمام ہائیکورٹس کو خطوط لکھے ، مگر لاہور ہائیکورٹ کے علاوہ کہیں تنازعہ نہیں ہوا، بلوچستان ہائیکورٹ میں تو ٹربیونلز کی کارروائی مکمل ہونے کو ہے، میں جب چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ تھا ہم نے واضح کہہ دیا تھا ٹربیونلز کے قیام کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے۔

دوران سماعت ہائیکورٹ کیلئے قابل احترام کہنے پر چیف جسٹس نے روکتے ہوئے کہا کہ قابل احترام ججز کیلئے کہا جاتا ہے، کیا انگلستان میں پارلیمان کو قابل احترام کہا جاتا ہے ؟ یہاں پارلیمنٹرین ایک دوسرے کو احترام نہیں دیتے ، گالم گلوچ ہوتی ہے، الیکشن کمیشن کو قابل احترام کیوں نہیں کہتے، کیا الیکشن کمیشن قابل احترام نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آئین بالکل واضح ہے الیکشن ٹربیونلز کا اختیار الیکشن کمیشن کو حاصل ہے، آرٹیکل 219 سیکشن C نے بالکل واضح کر دیا ہے، ہم نے عدالتی فیصلوں پر نہیں آئین وقانون کے تحت حلف اٹھا رکھا ہے، سپریم کورٹ نے جب جب آئینی تشریح کی پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آئین آرڈیننس کے اجراء کی اجازت دیتا ہے۔

صدارتی آرڈیننس لانا پارلیمنٹ کی توہین ہے، آرڈیننس ہی لانا ہے تو ایوان بند کردیں

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریٹائرڈ ججز پر مشتمل ٹریبونلز تشکیل سے متعلق صدارتی آرڈیننس کے اجراء پر اہم ریمارکس دیے کہ صدارتی آرڈیننس لانا پارلیمنٹ کی توہین ہے، اگر آرڈیننس ہی لانا ہے تو ایوان بند کر دیں، صدارتی آرڈیننس کے ذریعے تبدیلی کیسے کی جاسکتی ہے؟ ایک طرف پارلیمان نے قانون بنایا ہے، پارلیمان کے قانون کے بعد آرڈیننس کیسے لایا جا سکتا ہے، آرڈیننس لانے کی کیا وجہ تھی کیا؟ کوئی ایمرجنسی تھی، پارلیمان کے قانون کے بعد آرڈیننس کدھر سے آگیا، کوئی ایمرجنسی ہوتی تو سمجھ میں آتا ہے، یہ بھی تو الیکشن میں مداخلت ہے، الیکشن ایکٹ تو پارلیمان کی خواہش تھی، یہ آرڈیننس کس کی خواہش تھی، پارلیمان کی وقت زیادہ ہے یا کابینہ کی؟ اس آرڈیننس کے ذریعے ہائیکورٹ فیصلے کی نفی کی گئی۔

انہیں حکومت میں لاکر بٹھانے والے اب آرے سے سیٹ کاٹ رہے ہیں، عمر ایوب

چیف جسٹس پاکستان نے ایڈووکیٹ سلیمان اکرم راجہ سے کہا کہ پہلے بھی لاہور ہائی کورٹ نے ریٹرننگ افسر کے معاملے پر پورا انتخابی عمل ہی روک دیا تھا، کیا الیکشن کمیشن کو ہی ختم کردیں، آپ اپنا کام کریں دوسرے کو اپنا کام کر دیں، جس کا کام ہے، اسے کرنے دیاجائے، فرض کر لیں دو آئینی اداروں کی بظاہر لڑائی ہے، تو اس معاملے میں آپ کا کیا لینا دینا ہے۔

چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجہ کو ججز کیلئے ہینڈ پک کا لفظ استعمال کرنے سے روکتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کو ہائیکورٹ کے کچھ ججز پر تحفظات ہیں؟ لاہور ہائیکورٹ کے حوالے سے ایسے ریمارکس کو ہم تسلیم نہیں کریں گے، آرڈیننس کو دیکھ کر ہینڈ پک کا لفظ ہم استعمال کر رہے ہیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے استدعا کی کہ لاہور ہائیکورٹ کے سنگل رکنی بنچ کے فیصلے پر حکم امتناع جاری کیا جائے تاکہ ہم لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے بامعنی مشاورت کر سکیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم الیکشن کمیشن کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے مشاورت کیلئے روک نہیں رہے۔

عدالت نے پی ٹی آئی کے نو امیدواروں کو فریق بنانے کی استدعا منظور کرتے ہوئے نوٹس جاری کردیا اور سندھ و بلوچستان ہائیکورٹ میں الیکشن ٹریبونلز کے قیام کے لیے اپنائے گئے طریقہ کار کی تفصیلات طلب کر لیں۔

سپریم کورٹ نے لارجر بنچ کی تشکیل کیلئے معاملہ تین رکنی کمیٹی کو بھجواتے ہوئے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا اور سماعت ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب میں اضافی الیکشن ٹربیونل تشکیل دینے کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو چیف جسٹس کے نوٹی فکیشن کے مطابق پنجاب میں اضافی ٹریبونلز کے ججز تعینات کرنے کا حکم دیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر چیف جسٹس شہزاد ملک نے گزشتہ روز 8 ٹربیونلز کی تشکیل کے احکامات جاری کیے تھے۔

سلمان اکرم نے اپنی درخواستوں میں اضافی ٹربیونلز بنانے کی استدعا کی تھی۔

High Court News in Urdu.Pakistan News in Urdu.Lahore High Court First Surprise ECP..! Election Tribunals Judges Decision | Breaking News.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button