’میرے بن جاو‘، انتقام لینے کیلئے لڑکی کی فحش ویڈیوز وائرل کرنے پر مبنی کہانی
کراچی(آواز نیوز)اداکارہ کنزہ ہاشمی، زاہد احمد اور اظہر رحمٰن کا حال ہی میں نشر ہونے والا ڈراما سیریل ’میرے بن جاو‘ میں انتہائی اہم اور حساس موضوع کو اجاگر کیا گیا ہے جہاں لڑکا ویڈیو کالنگ کے ذریعے فحش حرکات کرنے پر مجبور کرتے ہوئے لڑکی کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل کردیتا ہ
ے۔ہم ٹی وی پر نشر ہونے والا ڈراما ’میرے بن جاو‘ کی کہانی معاشرے کے حقیقی واقعات سے متاثر ہوکر لکھی گئی ہے جہاں خواتین کو فحش پیغامات، ویڈیوز کے ذریعے دھمکی دے کر چپ کروا لیا جاتا ہے۔
ڈرامے میں عظمیہ کا کردار اداکارہ کنزہ ہاشمی نے ادا کیا ہے، جس کی منگنی کزن گردین سے ہوجاتی ہے جس کا کردار اداکار اظفر رحمٰن نے ادا کیا ہے۔ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ اگرچہ فردین حقیقی طور پر عظمیہ سے محبت کرتا ہے لیکن بعدازاں کہانی میں واضح ہوجاتا ہے کہ وہ محبت نہیں بلکہ شدید غصے کا مالک ہونے کے ساتھ عظمیہ کے ساتھ بدسلوکی اور ناروا سلوک بھی رکھتا ہے۔
شادی سے قبل فردین عظمیہ کو ویڈیو کال کے ذریعے جنسی حرکات کرنے کے لیے بلیک میل کرتا ہے جسے وہ خفیہ طور پر ریکارڈ بھی کررہا ہوتا ہے۔ابتدائی طور پر کہانی میں دکھایا گیا کہ عظمیہ خوفزدہ اور ہچکچاہٹ کا شکار رہتی ہے لیکن فردین اسے بار بار اصرار کرتے ہیں کہ چونکہ وہ جلد ہی میاں بیوی بننے والے ہیں اس لیے اس میں کوئی بڑی بات نہیں ہے، فردین عظمیہ پر دباو اور یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ یہ صرف ’چھوٹی سی بات‘ ہے۔بعدازاں عظمیہ اور فردین کا رشتہ اس الزام پر ختم ہوجاتا ہے کہ عظمیہ کے اپنے درزی کے ساتھ رومانوی تعلقات ہیں۔
(درزی کا کردار اداکار زاہد احمد نے ادا کیا ہے)۔ان الزامات کے بعد عظمیہ فردین کی سوچ کو واضح طور پر سمجھ جاتی ہے اور اسے مزید موقع نہیں دیتی اور رشتہ ختم کردیتی ہے، جس کے بعد فردین اس کا بدلہ لینے کے لیے عظمیہ کا چہرہ چھپا کر وہ تمام ویڈیوز سوشل میڈیا اور آن لائن پلیٹ فارم پر جاری کرلیتا ہے جو اس نے فحش حرکت کرتے ہوئے خفیہ طور پر ریکارڈ کی تھیں۔عظمیہ کا کردار ادا کرنے والے اداکارہ کنزہ ہاشمی کا کہنا ہے کہ جس طرح نجی تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے خواتین کو بلیک میلنگ اور استحصال کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، آج کے ڈیجیٹل دور میں یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔
اداکارہ نے ڈان امیجز سے بات کرتےہوئے کہا کہ یہ کردار کرنے سے قبل اس طرح کے کئی کیسز پڑھے تھے، انہوں نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر ایسی خواتین کو جانتی ہیں جنہوں نے غلط شخص پر بھروسی کیا اور اس شخص کی فحش حرکتوں کا شکار ہوئیں، آج کے ڈیجیٹل دور میں یہ ایک اہم مسئلہ ہے جہاں ہمیں دوستوں لوگوں پر بھروسہ کرنے میں محتاط رہنا چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ ’ڈراما ہمارے معاشرے کی حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں یہ معاشرے کا آئینہ ہیں جہاں سماجی چینلجز اور مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔‘کنزہ ہاشمی نے مزید بتایا کہ ’روایتی ساس بہو اور محبت کی کہانیوں سے آگے بڑھ کر ایسی کہانیوں کو سامنے لانا بہت ضروری ہے جو ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔
’کنزہ ہاشمی نے کہا کہ وہ ایسے حساس موضوعات اور مسائل کو اجاگر کرنا چاہتی ہیں لیکن وہ ڈرامے میں ان مناظر کو فلمانے سے گھبرا رہی تھیں جس میں فردن عظمیہ کو ویڈیو کال کے ذریعے مباشرت کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔
اداکارہ نے کہا کہ ’میں اس مناظر کی شوٹنگ کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھی لیکن پھر میں اپنے ڈائریکٹر (احمد کامران) کے ساتھ بیٹھی اور مشاورت کی کہ کس طرح غیر آرام دہ ہوئے بغیر اس سین کی شوٹنگ کی جائے۔
‘انہوں نے کہا کہ ’ناظرین کی جانب سے ممکنہ شدید ردعمل اور تنازع کے بارے میں سوچ کر ڈر محسوس ہونا فطری بات ہے لیکن اس منظر کو دکھائے بغیر کہانی کو آگے نہیں بڑھا سکتے تھے‘۔یاد رہے کہ اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا ایجاد ہونے کے بعد تصاویر اور ویڈیوز آن لائن شئیر کرنا بہت آسان ہوگیا ہے۔
کوئی بھی انتقام لینے کے لیے کسی بھی شخص کی فحش تصاویر اور ویڈیوز اپلوڈ کرسکتا ہے تاہم اس صورتحال میں سب سے زیادہ شکار ہونے والی خواتین اور نوجوان لڑکیاں ہیں جن کی عمریں 16 سے 26 سال کے درمیان ہوتی ہیں۔
گزستہ سال اگست میں بی بی سی کی پینوراما کی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ مخصوص پلیٹ فارم کے صارفین جنوبی ایشیائی خواتین کی تصاویر کا تبادلہ کر رہے تھے، اس پلیٹ فارم کے بند ہونے سے پہلے صارفین نے 20 ہزار سے زیادہ لوگوں کو اس کام میں شامل کرلیا تھا جن کے پاس 15 ہزار سے زیادہ تصاویر تھیں۔
پریشان کن بات یہ ہے کہ ان میں سے کچھ تصاویر میں خواتین کی ذاتی تفصیلات بھی شامل تھیں۔طویل عرصے تک انتقام لینے کے لیے فحش تصاویر اور ویڈیوز پوسٹ کرکے مجرمانہ فعل میں ملوث افراد کو قانونی طور پر کسی نتائج کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا لیکن 2016 میں پاکستان نے نئی پالیسیوں کا نفاذ کیا جس کے تحت رضا مندی کے بغیر فحش تصاویر اور ویڈیوز پوسٹ کرنے پر جرم قرار دیا گیا تھا۔
جس کی پانچ سال قید اور 50 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔تاہم ان قوانین نے معاشرے کے کچھ لوگوں کی ذہنیت کو تبدیل نہیں کیا، اگرچہ ایک شخص رضا مندی کے بغیر کسی کی فحش تصاویر اور ویڈیو پوسٹ کرتا ہے لیکن معاشرے میں ہمیشہ متاثرہ شخص کو ہی الزامات اور تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ثنا جاوید ،عمیر جسوال میں علیحدگی کی افواہیں گردش کرنے لگیں
ڈراما سیریل میرے بن جاو میں بھی یہی دکھایا گیا ہے کہ متاثرہ لڑکی کی تصاویر اور ویڈیو سوشل میڈیا، واٹس ایپ گردش کی گئی ہیں اور اسے ہی معاشرے کے طعنوں، دھمکیوں، اپنی حفاظت کے بارے میں خطرات اور خراب ذہنی صحت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
کنزہ ہاشمی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ آن لائن سیفٹی انتہائی ضرورتی ہے جسے کے بارے میں ہمیں ہمیشہ خبردار رہنا چاہیے، جو شخص آپ کی رضامندی کے بغیر آپ کا ذاتی مواد شیئر کرتا ہے اس کا قصورار آپ نہیں بلکہ وہ شخص ہے۔
انہوں نے کہا کہ عظمیہ بہت معصوم تھی اور فردین کے پھیلائے ہوئے جال بھی پھنس چکی تھی لیکن آخر میں وہ اپنے لیے کھڑی ہوتی تھی اور ڈٹ کر مقابلہ بھی کرتی ہے۔’