بھارت میں مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوزرسے مسمار کرنے کا سلسلہ جاری
اسلام آباد(آواز نیوز)اگرچہ بھارتی حکمران جماعت نے دنیا کودکھانے کے لئے گستاخانہ بیانات دینے والے اپنے دو رہنماﺅں کومعطل کر دیاہے۔
اس کے باوجود نریندر مودی کی فسطائی حکومت نے ہندو بالادستی کے نظریے کو آگے بڑھانے کے لیے مسلمان کارکنوں کے گھروں کو مسمار کرنا جاری رکھاہوا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ایک ٹیلی ویژن مباحثے میں بی جے پی لیڈر نوپور شرما کے گستاخانہ گفتگو کے بعدپورے بھارت میں مسلمان سڑکوں پر نکل آئے اور نوپورشرما کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔
مظاہرین کو پولیس مقدمات ، گرفتاریوں اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلمان مظاہرین پر پولیس مظالم کے انتہائی پریشان کن مناظر ریاست اتر پردیش سے دیکھنے میں آئے ہیں۔
جہاں احتجاج کو منظم کرنے کے الزام پر کارکنوں کے گھروں کو مسمار کرنے کے لیے بلڈوزر استعمال کیے گئے ۔ اتر پردیش میں مسلمانوں کی املاک کو تباہ کرنے کے لیے بلڈوزر کے بڑے پیمانے پر استعمال کی وجہ سے ریاست کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کوبلڈوزر باباکا لقب دیا گیا ہے۔
جن لوگوں کے مکانات مسمار کیے گئے ان میں ایک مسلمان کارکن آفرین فاطمہ بھی شامل ہیں جو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے دوران سامنے آئی تھیں۔
فاطمہ نے میڈیا کو بتایا کہ ان کے خاندان کو اپنا سامان بچانے کا بھی موقع نہیں دیاگیا۔انہوں نے اپنی ڈرائنگ،اہلخانہ کے لئے بنائے گئے کارڈ زکچلے ہوئے سیمنٹ کے سلوں اور کنکریٹ کے ٹکڑوں پر پڑے ہوئے دیکھے۔
انہوں نے کہاکہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب یوپی میں مسلمانوں کے گھروں کو تباہ کرنے کے لیے بلڈوزر استعمال کیے گئے ۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے اس سال کے اوائل میں انتخابی مہم میں بلڈوزر کو مرکزی علامت بنایا۔
مسلمانوں کویہ پیغام دیا گیا ہے کہ آئین یا عدلیہ ان کی مدد نہیں کرے گی چاہے ریاست ان کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرے۔ سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے محقق عاصم علی نے ٹی آر ٹی کی طرف سے شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا کہ یہ بھارتی مسلمانوں کی ڈی فیکٹو نیم شہریت کی تحلیل کی طرف ایک اور سنگ میل ہے۔
مظاہرین پر صرف حکومت کے خلاف اپنی شکایت پرامن طریقے سے بیان کرنے پر دہشت گردی کے الزامات لگائے گئے۔ ممتاز بھارتی فیکٹ چیکر آلٹ نیوز کے محمد زبیر کے خلاف متعدد مقدمات درج کیے گئے جو اکثر مسلم دشمن نفرت انگیز تقاریر کو سامنے لاتے ہیں۔ وہ پہلے صحافی تھے۔
جنہوں نے وہ نیوز کلپ شیئرکی تھی جس میں بی جے پی کے ایک ترجمان نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں توہین آمیز گفتگو کی تھی۔
بی جے پی نے مسلمانوں کو بلڈوزر سے جواب دیا ہے اور بلڈوزر کا واضح پیغام یہ تھا کہ حکمران بی جے پی مسلمانوں کو ایسا گروپ نہیں سمجھتی جس کے ساتھ بات چیت کی جائے بلکہ ایک ایسا گروہ سمجھتی ہے جس کو وہ جب اور جہاں چاہیں طاقت کا استعمال کر کے کنٹرول کرسکتی ہے۔
عاصم نے کہا کہ یہ بھارت کی آئینی اقدار کا خاتمہ ہے۔ یہ ریاست کی سرپرستی میںغریب اور اقلیتوں کو نشانے کا عمل بنانا ہے۔
بھارتی کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے کہا کہ بی جے پی کو اپنے دلوں میں موجود نفرت پر بلڈوزر چلانا چاہیے۔ عمام نے جن کا گھر بھارتی حکام نے مسمار کیا ہے۔
صحافیوں کو بتایا کہ یہ سب کچھ دو گھنٹوں کے اندراندر توڑا گیا۔ یہ ہمارا واحد گھر تھا۔ میں نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ میڈیا اسے براہ راست دکھا رہا تھا اورالزامات لگانے میںانتظامیہ کی مدد کر رہاتھا۔ ہم اب بے گھر ہیں۔
میرے والد نے جوکچھ بھی بنایاتھا وہ دو گھنٹوں میں تباہ ہو گیا۔ یہ بہت تکلیف دہ ہے، میرے پاس بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔
بھارتی سفارتخانے کے باہر بھرپور احتجاجی مظاہرہ
سویڈن کی یونیورسٹی میں امن اور تنازعات کی تحقیق کے پروفیسر اشوک سوین نے جو نریندر مودی حکومت کے فسطائی رویے کے ناقد ہیں ، بھارت میں مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کرنے پر کہا کہ جب کسان احتجاج کر رہے تھے کسی نے ان کے گھر نہیں گرائے۔ جب گجر احتجاج کر رہے تھے کسی نے ان کے گھر نہیں گرائے۔
جب راجپوت احتجاج کر رہے تھے کسی نے ان کے گھر نہیں گرائے۔ صرف اس وقت جب مسلمانوں نے احتجاج کیا ان کے گھروں کو مسمار کیاگیا۔
جی ہاں بھارت بہت سیکولر ہے،بلڈوزر بھارت میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی علامت بن چکاہے۔
ایک ماہر قانون فواز شاہین نے الجزیرہ کو بتایاکہ مسلمانوں کے گھروں کو کسی ایک فرد کی طرف سے قانون کی خلاف ورزی پر مسمار نہیں کیا جارہا بلکہ اسے ان لوگوں کی اجتماعی سزا کے طورپر ا ستعمال کیا جارہاہے۔
جو حکومت یا ان کی اکثریت پسندی پر سوال اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں۔
ایک ٹوئٹرایڈم شووا نے کہا کہ بھارت میں اپنے بنیادی انسانی حقوق کو استعمال کرنے والے لوگوں کو گرفتارکرنا اوران کے گھروںکو مسمار کرنا انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے اورہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔
Bulldozers continue to demolish Muslim homes in India Latest Kashmir News in Urdu