بائیڈن کی قومی سلامتی حکمت عملی کا اعلان
موسمیاتی تبدیلی ،آمرانہ حکومتوں کے عروج جیسے خطرات پرپائیں گے،امریکی صدر
واشنگٹن(آواز نیوز)وائٹ ہاﺅس نے طویل عرصے سے التوا کا شکارقومی سلامتی کی حکمتِ عملی کااعلان کیا ہے۔اس میں جمہوری ممالک کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے اورچین کے عروج کو روکنے کی کوشش کی گئی ہے
یوکرین کے بحران کی وجہ سے تاخیرکا شکار ہونے والی 48 صفحات پرمشتمل یہ دستاویزانتظامیہ کی سوچ میں کسی جوہری تبدیلی کی عکاس نہیں اوراس میں صدر جوبائیڈن کی خارجہ پالیسی کا کوئی بڑا نیا نظریہ پیش نہیں کیا گیا ہے
یورپ کا متفقہ طور پر ایران پر پابندیوں کا فیصلہ
اس کے بجائے اس دستاویز میں وائٹ ہاس کے اس نقطہ نظر پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ امریکی قیادت موسمیاتی تبدیلی اور آمرانہ حکومتوں کے عروج جیسے عالمی خطرات پر کیسے قابو پاسکتی ہے۔
اس میں کہا گیا کہ روسی حملے کے بعد بھی چین عالمی نظام کے لیے سب سے زیادہ چیلنج کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس لیے اگرامریکا دنیا بھر میں اپنا اثرورسوخ برقراررکھناچاہتا ہے تواسے سپرپاورکے ساتھ اقتصادی ہتھیاروں کی دوڑ میں بھی کامیابی حاصل کرنا ہوگی۔
وائٹ ہاﺅس کے قومی سلامتی کے مشیرجیک سلیوان نے پالیسی کے پیش لفظ میں کہاکہ چین بین الاقوامی نظام کو اس انداز میں اپنے حق میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
جس کا جھکا عالمی کھیل کے میدان میں اس کے اپنے مفاد کی طرف ہوسکے جبکہ امریکا ہمارے ممالک کے درمیان مسابقت کو ذمہ دارانہ طور پر منظم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
سلیوان نے کہا کہ امریکا کو چین کے ساتھ تعلقات کو منظم کرنا چاہیے جبکہ بین الاقوامی چیلنج لوگوں کو متاثر کررہے ہیں۔
ان میں موسمیاتی تبدیلی، غذائی عدم تحفظ، متعدی بیماریوں، دہشت گردی، توانائی کی منتقلی، اور افراط زرایسے مسائل ہیں۔
بائیڈن نے ابھی تک خارجہ پالیسی کے کچھ اہم مباحث کو حل نہیں کیا ہے ۔ان میں ان کے پیشرو ڈونالڈ ٹرمپ کی طرف سے نافذکردہ چینی مصنوعات پر محصولات شامل ہیں۔ان سے امریکی درآمد کنندگان کو اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
اس کے علاوہ روس کے اقدامات سے نمٹنا،دیرینہ اتحادی سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں سردمہری اوربھارت کا روس کی توانائی پرانحصار شامل ہے۔