پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے میں ڈاکٹر عبدلقدیر خان کی گراں قدر خدمات
تحریر: قاضی محمد شعیب ایڈووکیٹ
پاکستانی قوم نے اپنے ماضی سے کوئی سبق حاصل نہ کیا ۔ جو صرف مرنے کے بعد اپنے محسنوں کو یاد کرتی ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح شدید بیماری کی حالت میں ہسپتال جاتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئے۔
سابق وزیر اعظم پاکستان شہید ذولفقار علی بھٹو کو ایک جھوٹے اور بے بنیاد مقدمے میں پھنسا کر عدالتی قتل کر دیا۔ جنھوں نے ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لئے ڈاکٹر عبدلقدیر خان کو جوہری پروگرام کا سر براہ بنایا اور آج ہم پاکستان کے دشمنوں کے سامنے سیہ پلائی دیوار بنے ہوئے ہیں۔
جو ڈاکٹر عبدلقدیر خان کی انتھک کاوشوں اور احسانوں کا ہی ثمر ہے۔ کہ پاکستان ایک ایٹمی پاور ریاست کے طور پر علمی سطع پر ابھرا ہے۔ جس کی بناء پر ہمارے درینہ دشمن بھارت سمیت دیگر ممالک پرخوف و ہراس طاری ہے۔
بقول شاعر
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کے دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
وطن عزیز پاکستان کے دفاع کو نا قابل تسخیر بنانے والے محسن پاکستان جوہری سائنسدان ڈاکٹر عبدلقدیر خان طویل علالت اور قید تنہائی کے بعد 10 اکتوبر 2021 کی صبح پوری قوم کو سوگوار چھوڑ کر اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے۔
ملک و ملت کے لئے ان کی گراں قدر خدمات کے سلسلے میں پارلیمنٹ سمیت دیگر اہم عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں رہا۔
میڈیا میں ان کے اچانک انتقال کی خبر سن کر پوری قوم پر سکتے کا عالم طاری رہا ۔ لوگ تو مٹی میں سونا تلاش کرتے ہیں لیکن ان کی ناگہانی وفات کے بعد یوں لگا کہ اسلام آباد کے سیکٹر H-8 قبرستان میں ہم نے مٹی میں سونا دفن کر دیا۔ ان کے انتقال کا ایک سال بڑی خاموشی کے ساتھ گذر گیا۔
ڈاکٹر عبدلقدیر خان نہ صرف پاکستان بلکہ پوری امت مسلمہ کے محسن ہیں جنھوں نے پاکستان کو جوہری طاقت بنا کر دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف سازش میں ملوث مغربی ممالک کو منہ توڑ جواب دے دیا۔
اس عظیم مقصد کو شرمند ہ تعبیر بنانے کے لیے انھوں نے شدید نامساعد حالات کے سامنا کیا جس کا انھوں نے اکثر میڈیا میں اظہار بھی کیا۔ سکیورٹی کے خدشات کے پیش نظر ان کو نقل و حرکت کی آزادی حاصل نہیں تھی۔
ان کے قریبی عزیز و اقارب کو بھی طویل سکیورٹی کلیئرنس کے مراحل کے بعد ہی ملنے کی اجازت تھی۔ روس، اسرائیل، چین، بھارت، ایران، ہالینڈ، لبیا، شمالی کوریا سمیت دیگر ممالک کے جوہری سائنسدان ایٹمی راز وں کے امین ہونے کی وجہ سے ہر وقت سکیورٹی حصار میں رہتے ہیں۔
لیکن ان کو بعض معاملات میں مکمل آزادی اصل ہوتی ہے۔ لیکن ڈاکٹر عبدلقدیر خان کو نقل و حرکت کے مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں کمرہ عدالت تک پہنچنے کے لیے بھی حکومتی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے وکیل توفیق آصف کو بھی عدالت کے حکم پر رسائی دی گی۔
ان کے وکلاء نے کہا کہ یہ کیسے آزاد شہری ہیں جن کو اپنے وکلاءتک بھی رسائی حاصل نہیں۔ بعدازاں بڑی مشکل سے ان کے وکلاءسے ملاقات کرائی گئی۔
ٓآزاد قومیں ہمیشہ اپنے محسنوں کی قدر کرتی ہیں اور ان کی کاوشوں کو تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جاتا ہے۔لیکن ڈاکٹر عبدلقدیر خان کو اس وقت قربانی کا بکرا بنایا گیا۔
جب 2004 میں پاکستان مخالف غیر ملکی حلقوں کے دباءپر اس کے وقت کے صدر پاکستان جنرل مشرف نے جوہری سازوسامان کی مبینہ سمگلنگ کے شک کی بنیاد پر میڈیا پر پوری پاکستانی قوم کے سامنے اعتراف جرم کرنے پر مجبور کرتے ہوئے ان کو اپنے گھر میں نظر بند کر دیا۔
اگرچہ سال 2009 میں ڈاکٹر عبدلقدیر خان کو ہائی کورٹ کے حکم پر نقل و حمل کی محدود اجازت دی گئی۔ اس کے باوجود پاکستان میں ان کو جوہری پروگرام کا معمار اور قومی ہیر و کی حیثیت حاصل ہے۔
ڈاکٹر عبدلقدیر خان کو ہالینڈ کی ایک عدالت نے اپنے سائنسدانوں کی رپورٹ پر اس وجہ سے بری کر دیا کہ ان کے پاس جو ایٹمی راز ہیں وہ ان کی کتابوں میں بھی مو جود ہیں۔
امریکہ کے خفیہ ادارے سی آئی اے نے ڈاکٹر عبدلقدیر خان کو 9/11 کے واقعے کے تناظر میں اسامہ بن لان کے ساتھ جوڑنے کی بھی سازش کی مگر وہ کوئی ٹھوس شواہد حاصل نہ کر سکے۔ ڈاکٹر عبدلقدیر خان نے ان تمام الزامات اور مصائب کا جواںمردی سے مقابلہ کیا۔
وہ بھارت کے علاقے بھوپال کے ایک پڑھے لکھے اور مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ عاجزی اور ملنساری ان کے کردار میں شامل تھی۔ مرتے دم تک معمولی سی پنشن پر قناعت کی۔
لوک میلہ اسلام آباد میں اختتام پذیر، بلوچستان کے فنکاروں کی پروفارمنس
ان کے انتقال کے بعد ان کے سوگوار خاندان کی سکیورٹی اور ان کے اثاثہ جات کے تحفظ کے لیے سرکاری سطع پر ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔