بجلی بلوں کی کڑک: کن مدوں میں عوام ٹیکس دیتی ہے
پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر نامے پر ایک نگراں حکومت کی جانب سے بجلی کے بلوں میں اضافے اور بے تحاشا ٹیکسوں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کے درمیان ملک کے داخلی معاملات پر توجہ کی ضرورت ہے۔
انتظامیہ کی جانب سے تکنیکی حل نکالنے کی کوششوں کے بجائے ٹیکسوں کی بھرمار عوام کا معاشی قتل کر رہے ہیں، ملک کا معاشی عدم استحکام برقرار ہے اور بدتر ہوتا جا رہا ہے۔ مہنگائی اور قیمتوں میں اضافے کے ساتھ حالیہ برسوں میں حکومتی تبدیلیوں کا ایک سلسلہ شہریوں کے لیے ایک سنگین صورتحال کا باعث بنا ہے۔
گزشتہ چند سالوں میں پاکستان کی سیاسی قیادت میں تبدیلیوں کا ایک سلسلہ دیکھا گیا ہے، جس میں منتخب حکومتوں کی جگہ اتحادیوں اور اب نگراں انتظامیہ نے لے لی ہے۔ بدقسمتی سے، اس سیاسی ہنگامے نے معاشی عدم استحکام میں حصہ ڈالا ہے، جس میں افراط زر کی شرح میں مزید اضافہ ہوا ہے۔خاص طور پر خوراک اور توانائی جیسے ضروری شعبوں سے منسلک ضروریات زندگی کی قیمتوں میں ٹیکسوں کی بھرمار سے ہوشربا اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے عوام پر اہم مالی بوجھ پڑا ہے۔ الیکٹرک بل، جو کہ بہت سے شہریوں کے لیے بنیادی تشویش ہے، میں سو گنا تک اضافہ ہوا ہے، جس کی ایک بڑی وجہ ٹیکس کا پیچیدہ نظام ہے۔
پاکستان میں بجلی کے بلوں میں موجود یونٹس پر آنے والے بل کا تعین اس کے استعمال کے مطابق یونٹوں کی تعداد کرتی ہے۔ سو یونٹس سے کم بجلی ٹیرف میں فی یونٹ قیمت پانچ سو یونٹ والے بل سے نسبتاً کم ہو گی۔ لیکن اسی بل میں حکومت ٹیکسوں کی مد میں جو صارفین کی جیب پر ڈاکہ ڈالتی ہے اس پر سوال اٹھانا ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو فی یونٹ فنانسنگ کاسٹ چارج .43 پیسہ وصول کیا جاتا ہے۔
اس کے بعد شروع ہوتی ہے ٹیکسوں کی لمبی قطار۔ جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں دس فیصد سے لے کر پچیس فیصد تک، آمدنی ٹیکس بھی پانچ فیصد سے بیس فیصد، سہہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ یا ڈی ایم سی 1.86 سے آٹھ فیصد، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر ای ڈی023. سے 23. فیصد ، الیکٹریسٹی ڈیوٹی 87. سے 2 فیصد، ایکسٹرا ٹیکس 3فیصد سے دس فیصد، گھریلو صارفین سے ٹی وی فیس 35 روپے، Further tax دو سے پانچ فیصد، آر ایس ٹیکس تین سے پانچ فیصد، ایف پی اے کا آر ایس ٹیکس 0.08 سے دو فیصد، ایف پی اے پر جی ایس ٹی0.3 سے 1 فیصد، ایف پی اے پر 0.05 فیصد Further tax, پراگ آئی ٹی پیڈ ایفوائے ٹیکس پانچ سے پندرہ فیصد، پراگ جی ایس ٹی پیڈ ایفوائے ٹیکس پانچ فیصد سے اٹھارہ فیصد، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ایک فیصد سے پندرہ فیصد، ایف سی سرچارج چار سے دس فیصد، بل ایڈجسٹمنٹ پانچ سے پندرہ فیصد، ٹوٹل فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ دو فیصد سے دس فیصد تک ٹیکس وصول کئے جاتے ہیں۔
اگر ہم ان سب ٹیکسوں کو اکٹھا کریں تو یونٹوں کے استعمال کے حساب سے ٹوٹل پچاس فیصد سے سڑسٹھ فیصد کے درمیان ٹیکس وصول کئے جاتے ہیں۔ ان کو اگر ہم مزید مختصر کریں تو آسان الفاظ میں گھریلو صارفین سے 51 روپے فی یونٹ قیمت میں، ایندھن 6 روپے، 15 روپے بجلی گھر کرایہ، 16 روپے حکومت کا ٹیکس، 6.5 روپے دوسروں کو مفت یا سستا دینے کی مد میں اور آخر میں 6.5 روپے فی یونٹ بجلی چوری ہونے کا نقصان وصول کیا جاتا ہے۔ اسی شرح سے کمرشل صارف سے 66 سے اسی روپے فی یونٹ تک قیمت وصول کی جاتی ہے۔
ماہرین کی رائے میں ان حالات پر قابو پانے کے مختلف حل ہیں۔ جن میں سے چند نقاط پیش کئے گئے ہیں۔ ٹیکس کے نظام کو ہموار کرنے سے صارفین پر بوجھ کو نمایاں طور پر کم کیا جا سکتا ہے۔ بجلی کے بلوں پر ٹیکسوں اور محصولات کی وسیع رینج پر دوبارہ غور کرنا، اور معقولیت کے لیے اختیارات تلاش کرنا، مجموعی اخراجات کو کم کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔
قابل تجدید توانائی کے ذرائع میں سرمایہ کاری مہنگے جیواشم ایندھن پر انحصار کو کم کر سکتی ہے، بالآخر بجلی کی قیمتوں کو روک سکتی ہے۔ اس منتقلی کے مثبت ماحولیاتی اثرات بھی ہو سکتے ہیں۔
کم آمدنی والے گھرانوں کے لیے ٹارگٹڈ سبسڈیز فوری ریلیف فراہم کر سکتی ہیں۔ تاہم، اس رعایتی عمل کو اچھی طرح سے ترتیب دیا جانا چاہیے اور مؤثر طریقے سے تقسیم کیا جانا چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ ان لوگوں تک پہنچیں جنہیں ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ معاشی بحالی کے لیے مستحکم سیاسی ماحول کا قیام بہت ضروری ہے۔ شفاف طرز حکمرانی اور پالیسیاں جو شہریوں کی فلاح و بہبود کو ترجیح دیتی ہیں اعتماد پیدا کر سکتی ہیں اور سرمایہ کاری کو راغب کر سکتی ہیں، جو بالآخر ترقی کا باعث بنتی ہیں۔
توانائی کی تقسیم کی کارکردگی کو بہتر بنانا اور چوری کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنا لاگت کو روکنے پر براہ راست اثر ڈال سکتا ہے۔ بنیادی ڈھانچے کو جدید بنانے اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال میں سرمایہ کاری اس مقصد کے حصول میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
پاکستان کے معاشی چیلنجز کثیر جہتی ہیں، جو سیاسی عدم استحکام، مہنگائی، اور ٹیکس کے پیچیدہ نظام سے پیدا ہوئے ہیں۔ شہریوں پر پڑنے والا بوجھ، خاص طور پر بجلی کے بے تحاشا بلوں سے، فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے ٹیکس اصلاحات، توانائی کے تنوع، سبسڈی کی معقولیت، عوامی بیداری، سیاسی استحکام اور کارکردگی میں اضافہ پر مشتمل ایک جامع نقطہ نظر ضروری ہے۔
جیسے ہی قوم اس بحران سے گزر رہی ہے، پالیسی سازوں، ماہرین اقتصادیات اور شہریوں کی مشترکہ کوششیں مزید مستحکم اور خوشحال مستقبل کی جانب راہ ہموار کر سکتی ہیں۔