کالم و مضامین

”ڈاکٹر یوسف عالمگیرین!عصر حاضر کے رشید احمد صدیقی“

بشریٰ نسیم

ریختہ کہیے یا اردو !اس زبانِ شیریں کو کبھی اندیشہ زوال نہ ہوا ،نہ ہوگا ۔کیونکہ بہت سی ادبی وداعی ریختہ کی قد آور شخصیات اس کے علم بلند رکھے ہوئی ہیں ۔ریختہ کی حلاوت وآفرینی کا سحرجن باکمال اہل سخن نے طاری کررکھا ہے ،ان میں سے عظیم المرتبت ساحر جنابِ محترم ڈاکٹر یوسف عالمگیرین صف اول کے امام وپیشوا ہیں ۔

بیضوی چہرہ ،کمان جیسے ابرو،ہلکی مونچھیں،مدبرانہ جبیں ،فربہی جسم،ناطق چشم اور مدبرانہ سا لب ولہجہ ،عاجزانہ چال اور دراز قد جن کے لفظوں کی چاشنی مخاطب کو اپنا چند ثانیے میں گرویدہ بنالیتی ہے۔ڈاکٹر یوسف عالمگیرین ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں ۔

علم وادب کا وہ چمکتا ستارہ جنہوں نے علمی ضیاءسے اوہام وتنگ نظری کی تمام تاریکیوں کو جلا بخش رکھی ہے ۔ہر صنف سخن ،ہر مصنف ڈاکٹر یوسف عالمگیرین کانام بطور سند اپنی تحاریر اور کتب میں شامل کرنا فخر سمجھتے ہیں ۔یہ انکی علمی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ محض نام کے اندراج سے متلاشیانِ علم کو تعلیمی فیض پہنچتا ہے ۔ڈاکٹر یوسف بہت نفیس طبع کے مالک ہیں جنہوں نے ہمیشہ نئے لکھنے والوںکو ترجیح دی ہے ۔

آرمی چیف سے جنرل احمد شریف تک

وہ نا صرف خود باکمال ہیں بلکہ جوہر شناس بھی ہیں ۔جنہوں نے مجھ جیسی کثیر تعدادجوئندگان ِعلم کو خام سے کندن بنادیا ۔حال ہی میں انکی (شخصی خاکوں )کی کتاب ”خوش باشیاں “پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔خاکہ کیاہے اور کیسے،لکھااور بنایاجاسکتا ہے یہ کوئی ڈاکٹریوسف عالمگیرین سے پوچھے ؟وجہ یہ کہ اس صنف کو ادب کی ٹیڑھی پسلی کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا کیوں کہ یہاں بڑے بڑوںکو منہ کی کھاتے ہوئے ہم نے دیکھا ہے ۔

قصہ یوں کہ جب آپ کسی شخصیت پر گفتگو کرنے لگتے ہیں اور اس کی کج رویوں کو یوں سمجھ لیجئے کہ ٹیرھی پسلی کو سیدھا کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں تو وہ آدمی آدمی نہیں رہتا بس فرشتوں کے لکھے پر کوئی ناحق ہی پکڑا جاتا ہے ۔لیکن یوسف عالمگیرین نے الٹا ہی کام کیا ۔

خود کاتب بنے اور لگے گنجے فرشتوں کے نامہ اعمال لکھنے کوئی ان سے پوچھے کہ زمین زادہ ہوکر آسمان والوں کی صورت گری کرنے چلے ہو۔جس میں یہ کامیاب بھی ہوئے ہیں۔

ان کی خالہ نگاری بھی اپنے اندر تہیں رکھتی ہیں جس کی تہہ میں ایک نئی دنیا آباد ہے۔ان کے خاکوں میں جتنی فکری سطحیں ہیں اس کی مکمل اور جامع قدر شناسی کے لیے گہرے اور تفصیلی مطالعہ کی ضرورت ہے ۔

ان کے اسلوب میں زبان وبیان کی لطافتیں ،سادگی وسلاست ،مشاہدہ ،گہرائی ،وسعت نظری اور فکر وفلسفہ کی آمیزیش سبھی کچھ شامل ہے ۔بطورایک رائٹر میں نے سو سے زائد بچوں کی کہانیاں لکھی ،کئی افسانے لکھے ،درجنوں کالمز اورمضامین لکھے اور تاحال یہ سفر جاری ہے،سینکڑوں رائٹرز کو پڑھا مگر یقین کیجئے بہت کم ایساہواہے کہ کسی رائٹرکی تحریر میں کھو گئی ہوں ورنہ تو محض کتاب ہی پڑھی ہے۔

ڈاکٹر یوسف عالمگیرین ایسے لکھنے والے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے نہ صرف فہم وفراست عطا کی ہے بلکہ ان کے قلم کو دلوں میں اتر جانے والی تحریر سے بھی نوازا ہے۔ان کی تحاریر کو پڑھ کر اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے اندر علوم کا خزینہ رکھتے ہیں بلکہ ان کے جذبات واحساسات بھی طوفان بادباراں کی طرح گرجتے وبرستے دکھائی دیتے ہیں ۔

یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا کہ ڈاکٹر یوسف عالمگیرین ملک وملت کے لیے کسی جوہر نایاب سے کم نہیں ،ایسا جو ہر جس کی قدر وقیمت اور اس کی اہمیت صرف ایک ماہر وزیرک جوہری ہی جان سکتا ہے ۔ جس طرح رشید احمد صدیقی صاحب کے طنز میں تلخی اور زہرناکی کا احساس نہیں ہوتا وہ چھوٹے چھوٹے فقروں سے بہت کام لیتے ہیں ۔

ان کے فن میں عامیانہ پن نہیں بلکہ گہرائی اور کیرائی کا بول بالا ہے بالکل یہ احساس ڈاکٹر یوسف عالمگیرین کے مزاح میں پایا جاتاہے ۔طنزومزاح ایک ایسی پل صراط سے گزرنے کا نام ہے کہ جس میں معمولی سی لعزش نہ صرف تخلیق کو ابتذال وپھکڑپن کا پلندہ بنادیتی ہے بلکہ خالق کی شخصیت کو بھی مجروح کردیتی ہے ۔

دراصل دانشوروں کے نزدیک طنز ومزاح نگار کی مثال ایسی ہے کہ جیسے بادشاہ کے منہ پر اس کی کمزوریاں بیان کرنے کی آزادی ہوتی ہے ۔لیکن یہ آزادی کتنی خطرناک ہوسکتی ہے اس کا اندازہ آپ خود بآسانی لگاسکتے ہیں ۔اس لیے طنز ومزاح کی پوری روایت میں کم افراد ایسے ہیں جن کے مزاحیہ نمونے(خاکے)اردوکو طرہ امتیاز عطا کرتے ہیں ۔

ڈاکٹر یوسف عالمگیرین کے خاکوں میں یہ خوبی ملتی ہے ان کی تنقید میں ادب کا دامن نہیں چھوڑا جاتا ۔خود اس بات کا اظہار یوسف عالمگیرین ”خوش باشیاں“میں بھی کرچکے ہیں ۔”تحریر جہاں انسان کے احساسات وجذبات کی ترجمانی کرتی ہے وہاں اسے سکون اور طمانیت بھی بخشتی ہے کہ اظہار دل کا بوجھ ہلکا کرنے کا ذریعہ ہے۔نثر کے مختلف رنگ ہیں جس میں ایک خاکہ نگاری بھی ہے جو ایک فن ہے ۔

خاکہ لکھنے اور اڑانے میں فرق ہوتا ہے ۔خاکہ لکھتے ہوئے قلم کو ضبط میں رکھنا انتہائی اہم ہے کہ کسی کا مذاق اڑانا اور ٹھٹھا لگانا جتنا آسان لگتا ہے اتنا ہی پرخطر بھی ہے جو ذاتی طور پر آپکی ”پھینٹی “کا موجب بھی بن سکتا ہے ۔پھینٹی،محبت کی کسی وار دات کی وجہ سے پڑے تو کوئی بات بھی ہے ۔اس طرح آپ پر بات بھی نہیں آتی کیونکہ لوگ کہیں گے”دیوانہ“پِٹ رہا ہے ۔

یوں آپ بری الذمہ ہوجاتے ہیں ۔گویا دوران تحریر پھونک پھونک کر قلم اٹھانا چاہیے ۔کچھ لوگ قلم اٹھا کر آسمان سر پر اٹھا نا چاہتے ہیں ۔جو شاید تحریر کا برملا استعمال نہیں ۔لکھتے ہیں ،میں نے ”خوش باشیاں “میں مختلف ادبی وغیر ادبی شخصیات کے حوالے سے قلم اٹھایا ہے لیکن پھونک پھونک کر کہ تحریر مزاح کے دائرے میں رہے تو اچھی رہتی ہے ۔کیونکہ طنز کے نشتروں سے جہاں بہت سی”باچھیاں “کھل اٹھتی ہیں وہاں کسی کے لطیف احساسات مجروح بھی ہوسکتے ہیں ۔اور یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے ”خوش باشیاں“میں جن شخصیات کی خاکہ نگاری کی ہے ان شخصیات کی زندگی کے مختلف پہلوﺅں کو لطیف پیرائے میں اجاگر کیا ہے اوراس بات کی حتی الامکان کوشش کی ہے کہ ان کے گریبانوں میں جھانکنے سے گریز کیا جائے اور صرف اتنا ہی لکھا جائے یا اتنی بات کی جائے جتنا آپ انہیں جانتے ہیں ۔

ہونا بھی یہ چاہیے مگر ہمارے ہاں ادب کی بھی بے ادبی کی جاتی ہے رائٹرز شخصیت پر لکھتے ہوئے اس کی ذایتات پر اتر آتے ہیں اور پھر تنقید برائے تنقید شروع کردیتے ہیں ۔

کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہوتا ہرانسان میں اچھائیاں اور کچھ نہ کچھ کمیاں کوتاہیاں(برائیاں) ہوتی ہیں شرعاًاور اخلاقاًہمیں ایسے دوست واحباب کی اصلاح کرنی چاہیے وہ بھی علیحدگی میں نہایت نرم انداز میں مگر یہاں تو کسی کو کسی دوسرے کی کسی کمی ،کوتاہی کا پتا چلنا چاہیے پھر یہ لوگ جینا محال کردیتے ہیں ۔”خوش باشیاں“پڑھ کر بوریت نہیں ہوتی بلکہ کہیں کہیں خاکہ نگاری کے جددامجد رشید احمد صدیقی،شاہداحمد دہلوی اور بابائے اردو مولانا عبدالحق کی واضح جھلک دکھائی دیتی ہے ۔

ادب سے مزین مزاح کہ جسے پڑھ کر بے ساختہ منہ نکلے واہ۔لکھنا اور پھر قاری کو اپنی تحریر کے حصار میں اسطرح قید کرلینا کہ وہ چاہ کر بھی لاکھ کوششوں کے باوجود بھی خود کو نہ چھڑا سکے یہ ہنرکوئی عصر حاضر کے عظیم شہسوار قلم ڈاکٹر یوسف عالمگیرین سے سیکھے۔ ڈاکٹریوسف بیک وقت کئی خوبیوں کے مالک ہیں ۔بہترین مقرر،اردو ،پنجابی کے شاعر،خاکہ نگار،کالم نگار،تجزیہ نگاراورمصنف ہیں انکی تحاریر اسلامیت،انسانیت اور پاکستانیت کا مظہر ہوتی ہیں ۔

قاری کو ورطہ حیرت میں ڈالنے والی خوبی رکھتے ہیں ۔آغاشورش کاشمیری کے بارے میں کہا جاتا کہ وہ جب بولتے تھے تو سننے والوں پرسکوت طاری ہوجاتا تھا سامعین کو لگتا تھا کہ اگر انہوں نے ذراسی جنبش کی تو آغا شورش کے الفاظ کا سحر ٹوٹ جائے گا ۔ڈاکٹر یوسف عالمگیرین کو بولتے دیکھیں توایسا لگتا ہے کہ جیسے ایک بارپھر سے آغا شورش کاشمیری جی اٹھے ہیں۔

ان کے متعلق بڑے بڑے ادیبوں،صحافیوں،دانشوروںنے بہت کچھ لکھا ہے یقیناان کے سامنے میرے یہ چند الفاظ بے معنی ہیں۔مگر مجھے اس بات کی بے حد خوشی ہے کہ راقم الحروف نے ان کے عقیدت مندوں میں اپنا نام لکھوالیا ہے۔

اور اس بات میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ ڈاکٹر یوسف عالمگیرین عصر حاضر کے رشید احمد صدیقی ہیں جنہوں نے تنقید ومزاح بھی ادب کے دائرے میں رہ کر کیا ہے ۔

Dr Alamgir Yousaf VS Rasheed Ahmad Siddiqui Urdu Column | Clip: Zehra Nigah | Rasheed Ahmed Siddiqui | Sp. Edition: Dr Arfa Zehra Aur Zarminae Ki Himaqatein

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button