کالم و مضامین

 عوام مہنگائی کی آگ میں جلنے لگے

M Imran Asghar Column

ایٹمی پاکستان کی عوام مہنگائی کی آگ میں جل رہی ہے جبکہ سیاست دان اقتدار کے کھیل میں مگن ہیں۔ اشیائے خور و نوش کی طرح مہنگائی کا جن گندم اور آٹے کو بھی چٹ کررہا ہے جبکہ کراچی،لاہور،پشاور، اور کوئٹہ میں مرغی کا گوشت بھی ساڑھے پانچ سو روپے فی کلوسے زائد کا فروخت ہورہا ہے جس سے شہریوں کیلئے سستی پروٹین کا حصول بھی مشکل ہوگیا ہے۔

اٹھارویں ترمیم کے تحت زیادہ تر اختیارات صوبوں کو منتقل ہوچکے ہیں، لہٰذا مہنگائی کے ایشو پر جہاں وفاق ذمے دار وہاں صوبے بھی اپنی ذمے داری سے انکار نہیں کرسکتے خصوصاً ڈیلی استعمال کی اشیاءکے نرخوںکو مستحکم رکھنا، تھوک مارکیٹس وغیرہ کو ریگولرائز کرنا اور وہاں نگرانی کرنا اور فول پروف میکنزم بنانا صوبائی حکومت کی ذمے داری بھی ہے۔

اور اس کے پاس اختیار بھی موجود ہیں۔سبزی اور پھل منڈیوں،سلاٹر ہاوسز، مویشی منڈیاں، کولڈ اسٹوریجز وغیرہ سب کا انتظام وانصرام صوبائی حکومتوں کا دائرہ اختیار ہے۔

صوبوں میں پرائس کنٹرول کمیٹیاں بھی موجود ہیں لیکن اس کے باجود ہر فطرف بدنظمی اور لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔اس کی تمام تر ذمے داری سرکاری عمال کی بدنیتی، کوتاہی ، رشوت خوری اور اختیارات کا ناجائز استعمال پر عائد ہوتی ہے۔

سبزی منڈیوں اور پھل منڈیوں میں چلے جائیں، وہاں صفائی کا انتظام موجود نہیں ہے۔ کوئی ڈسپلن موجود نہیں ہے۔ آڑھتیوںکی حکمرانی ہے جبکہ کسان کی حیثیت ایک گاہک سے زیادہ نہیں ہے۔

پاکستان میں مہنگائی کی ایک اور بڑی وجہ ’کارٹلائزیشن‘ ہے، جیسے سمینٹ، چینی اور دودھ بنانے اور ڈبو میں پیک کرنے والی کمپنیاں، ان کا اپنا اپنا کارٹل ہے اور یہی کارٹل اپنی پراڈکٹس کی ایجنسی اور ریٹیل پرائس طے کرتی ہیں، یہاں حکومت محض تماشائی ہے یا ان مینوفیکچرز اور کارخانہ داروں سے ٹیکس لیتی ہے۔

صارف کے مفادات کا کوئی تحفظ نہیں کیا جاتا۔کارٹلز انتہائی طاقتور ہوتے ہیں لہٰذایہ قوانین بھی اپنی مرضی کے بنوانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، اس طرح ان کی ناجائز منافع خوری کو بھی قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے جبکہ اینڈ یوزر بے بس اور مجبور ہوتا ہے۔ ریاست اس کے حقوق کیلئے کچھ نہیں کرتی۔

ملک کی 90 فیصد سے زائد شوگر ملیں طاقت ور سیاسی خاندانوں کی ملکیت ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ سرکاری خزانے سے سبسڈی لیتے ہیں ، جب چینی درآمد کرنا چاہییں کرلیتے ہیں اور جب برآمد کرنا چاہیے، برآمد کرلیتے ہیں چاہیے اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو۔اسی وجہ سے کبھی چینی کی قلت پیدا ہوجاتی ہے اور کبھی وافر ہوجاتی ہے۔ موجودہ مہنگائی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔

وزارت فوڈ سیکیورٹی کے مطابقملک کو 45 لاکھ ٹن گندم کی کمی کا سامنا ہے، جبکہ بااثر آڑھتیوں نے 40 لاکھ ٹن گندم ذخیرہ کرلی ہے۔ذخیرہ اندوزوں نے دو ماہ میں 30 ارب روپے اضافی منافع کمایا ہے جبکہ خیبرپختونخوا حکومت گندم کی اسمگلنگ روکنے میں ناکام ہوگئی ہے اور 6 لاکھ ٹن گندم افغانستان اسمگل ہوئی ہے۔

ملک بھر میں گندم بحران شدت اختیار کر گیا ہے، عوام آٹے کیلئے پریشان ہیں، مل مالکان اورآڑھتیوں کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔ منافع خور اور ذخیرہ اندوز اربوں روپے منافع کما رہے ہیں۔دراصل قیمتوں کو کنٹرول کرنا ضلعی انتظامیہ کی بنیادی ذمے داری ہے۔

مگر وہ صرف پریس ریلیز اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں کی لسٹ جاری کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے عوام کو ریلیف دے دیا ہے۔

پچھلے برس صدر مملکت نے پاکستان فوڈ سیکیورٹی فلو اینڈ انفارمیشن آرڈیننس جاری کیا تھا، جس کے تحت بلا جواز مہنگائی ذخیرہ اندوزی یا ان میں ملاوٹ کی صورت میں ملوث افراد کو چھ ماہ قید، جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جا سکیں گی۔ملک بھر میں سبزیاں اور پھل انتہائی مہنگے دام فروخت ہورہے ہیں۔

اس کی بنیادی وجہ بھی ہمارے نظام میں پایا جانے والا ایک کردار آڑھتی ہے ، جو منڈیوں میں ناجائز منافع خوری دھڑلے سے کرتے نظر آتے ہیں ، جنھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ کاشتکاروں سے گاو ¿ں کی سطح پر براہ راست خریداری کی جائے اور اس مقصد کیلئے میکنزم تیار کیا جائے، آڑھتیوں کے لیے بھی سرکاری ریٹ مقرر کیا جائے تاکہ کسان کو لوٹ مار سے بچایا جاسکے۔ آڑھتی کے خرید اور فروخت کا ریٹ مقرر کردیا جائے،اس طرح دکاندار بھی مقررہ ریٹ پر اجناس بیچ سکے گا اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس پر قانونی کارروائی بھی جائز سمجھی جائے گی۔

اس طرح معیشت کی ڈاکومنٹیشن بھی ہوجائے گی اور مارکیٹ میں استحکام آئے گا، صوبائی اور ضلعی حکومتوں کے ریونیو میں اضافہ ہوگا۔اس کے ساتھ سرکار منڈیوں کو صاف ستھرا رکھنے اور وہاں خریداروں اور فروخت کنندگان کی سہولت کیلئے اقدامات اٹھانے کی پابند ہے۔

عوام اور کر بھی کیا سکتے ہیں جب ان کے اپنے منتخب کردہ نمائندے اپنے شہریوں کے روزمرہ مسائل خاص کر اشیاءخورونوش کی خود ساختہ گرانی کی وجہ سے مہنگائی کے نام پر لوٹ مار سے لاتعلقی کا شکار ہوں۔

ضلعی حکومتیں اپنی ہی متعین کردہ اشیاءخورونوش کی قیمتوں کے سلسلے میں روزانہ نرخ نامہ جاری کرتی ہیں لیکن اس پر عملدرآمد کرانے میں عملاً بری طرح ناکام رہتی ہیں۔

کوئی بھی سبزی، پھل و پرچون فروش یا گوشت بیچنے والا نرخ نامہ لٹکا کر اس کے برخلاف اشیاءکی دگنی قیمت وصول کرتا ہے تو کسی گاہک کی جرات نہیں کہ وہ فروخت کرنے والے کو سرکاری نرخ نامہ کے مطابق دام ادا کرنے کی ضد کرسکے۔ لوٹ مار اور ناجائز منافع خوری کا یہ سلسلہ ہر دور میں جاری رہا ہے۔

کیپٹن شبیر شہید‘ شاہ کبیر کی جان

M Imran Asghar Column | Samaj Ki Awaz | Urdu Columnist | Bad News for People | Inflation Shockingly Hike in Pakistan

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button