وہ قیامت کا سماں تھا
سانحہ آرمی پبلک سکول میں دنیا سے کوچ کر نے والے کئی معصوموں کا وزن ان بھاری بھرکم اوزاروں سے بھی کم تھا جو دہشت گردوں نے انہیں ابدی نیند سلانے کیلئے استعمال کئے
حیوانیت اور درندگی کی یہ انتہا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی جب 16دسمبر 2014 کو اے پی ایس کا وہ سانحہ رونما ہوا جس نے ایک عالم کو غم و الم میں مبتلا کردیا۔
اس سانحہ میں ننھے پھول بربریت کا نشانہ بن کر شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے جو ملک کا روشن مستقبل توتھے ہی ساتھ ساتھ والدین کی آنکھوں کاخواب اور نور تھے۔
اللہ پاک نےانسان کو زمین پر خدا کا نائب بنا کر بھیجا ہے۔ انسان میں بے شمار خصوصیات اور عوامل یعنی انسان اعلیٰ ظرفی، حسن اخلاق، میانہ روی، وسیع قلبی، تعمیری سوچ،انسانیت کی خدمت سمیت کئی مثبت روایات کا امین ہے جس کی بدولت اشرف المخلوقات کے رتبہ پرفائز ہوا ہے۔
مگر جب یہی انسان منفی طرز عمل اختیار کرتا ہے تو پھر حیوانیت اور درندگی کی تمام حدیں پارکرنے میں بھی نہیں کتراتا۔دنیا میں درندگی اور وحشت کی علامت متعدد واقعات دیکھنے،پڑھنے اور سننے کو ملتے ہیں جس سے روح تک کانپ اٹھتی ہے۔
ان افسوس ناک اوردل کولرزہ ینے والے واقعات میں سانحہ اےپی ایس پشاور پہلے نمبر پرآئے گا جس میں معصوم ننھی کلیوں کو بیدردی سے مسل دیا گیا۔
سانحہ اے پی ایس میںدرندہ صفت دہشت گردوں نے ایسے معصوم بچوں کو نشانہ بنایا جن کو ابھی دنیا کی سوجھ بوجھ تک نہیں تھی۔جن کا کوئی قصور نہیں تھا۔
اس دہشت گردانہ حملے میں دنیا سے کوچ کر جانے والے معصوم شہزادوں میں کئیوں کا وزن ان بھاری بھرکم اوزاروں سے بھی کم تھا جو دہشت گردوں نے انہیں ابدی نیند سلانے کیلئے استعمال کئے۔
بزدل دشمن نے ایسا گھناونا وار کیا کہ انسانیت تک کانپ اٹھی۔جہاں ان بچوں کے والدین عزیز و اقارب کے دل و دماغ پر گہرے اور کبھی نہ مٹنے والے گھاﺅلگے وہیں پوری قوم سکتے میں آگئی۔
ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل ٹوٹ کر ہاتھوں میں آگیا۔ مگر آفرین ہے ان بد بخت دہشت گردوں پر جنہوں نے جھوٹی انا کی تسکین کیلئے ان ننھی کلیوں کو مسل کررکھ دیا۔سانحہ اے پی ایس میں شہید ہونے والے بچے قوم کو ایک نیا عزم اور ولولہ سے ہمکنار کر گئے۔
جس کے بعد پاک فوج اور ملکی سکیورٹی اداروں نے عوام کے شانہ بشانہ دہشت گردوں پر ایسے تابڑ توڑ حملے کیے کہ بزدل دشمن کی کمر ٹوٹ گئی اور کچھ دم دبا کر بھاگ نکلے۔ آج ملک میں جو امن کی فضا قائم ہو رہی ہے اس کے پیچھے ان نونہال شہیدوں کا خون بھی شامل ہے۔
”سانحہ پشاور“ بلاشبہ پاکستان کی تاریخ کا افسوسناک اور بد ترین واقعہ ہے جس نے پوری انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا،آٹھ سال پہلے ”آرمی پبلک سکول“میں ہونے والے دردناک سانحے اور دہشتگردی کے سفاک حملے نے 144 جانیں لے لیں۔
ان معصوموں کو تحریک طالبان پاکستان کے چھ دہشت گردوں نے اس وقت اپنے ظلم کا نشانہ بنایا جب وہ اسکول میں حصولِ علم میں مشغول تھے۔
سانحے میں طلباءاور اسکول اسٹاف سمیت 144شہید ہوئے اور چھ کے چھ دہشت گرد جہنم رسید ہوئے جب کہ 121 بچے شدید زخمی ہوئے۔
یہ المنا ک سانحہ متقاضی ہے کہ ہماری سوچ، رویوں اور ترجیحات کا مثبت رخ مستقل طور پر متعین ہونا چاہیے۔
موجودہ حالات میں حکومت اور فوج دونوں کو مل کر قومی مفاد میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔ سول حکمرانی کے نظام، باہمی مشاورت اور فیصلوں کو شفاف بنا کر ہی ہم کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔
ہمیں ملامتوں کے درمیان پھنسنے کی بجائے اصل مسائل اور محرکات کو سمجھ کر ادراک کرنا ہوگا۔اے پی ایس کے شہداءنے اپنے خون کا نذرانہ دے کر ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مزید تیز کیا اور ماضی کے مقابلے میں آج کا استحکام انہی شہداءکی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔
ان کی شہادت کا قرض پوری قوم پر ہے۔جن والدین کے لخت جگر اس سانحے کا شکار ہوئے ان کا حال ایک طرف تو یہ ہے وہ شہداءکے والدین ہونے پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں تو دوسری جانب جینے کی تمنا اور خواہش بھی معدوم ہوتی محسوس کرتے ہیں۔اس سانحہ کوگزرے آٹھ سال گزرگئے۔
مگرآج بھی زخم اسی طرح گہرا ور تازہ ہے والدین کے لیےآج بھی یہی سول ہےاوروہ یہی سوچتے رہتے ہیں کہ میرے بچے کے سکول میں سیکورٹی اتنی سخت تھی توکیسے دہشت گرد سکول کے اندر داخل ہو گئے۔بچہ کسی بیماری میں پڑ جائے تو ماں باپ کو خدمت کا موقع مل جاتا ہے۔
پاک افغان کشیدگی میں دانشمندانہ پا لیسی !
مگران والدین کووہ بھی میسر نہیں آیاہمارے ملک کے سیکورٹی اداروں کو ابھی کام کرنے کی ضرورت ہے یقیناً وہ وقت دورنہیں جب تمام حیوانوں کاصفایاہوجائے گااورسب کے چہرے پرمسکان سجی ہوگی۔