آج ڈاکٹر عافیہ صدیقی مظلومہ امہ امت مسلمہ کے قید تنہائی کے 7000 ہو گئے۔ آج 29 مئی کوامریکہ کی جیل میں 86 سالہ قیدی ، ماہر تعلیم ڈاکٹر عافیہ صدیقی مظلومہ امت مسلمہ کے قید تنہائی کے 7000 دن ہوگئے ہیں۔
اس بات کی اطلاع دیگر صحافیوں اور راقم کو ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے ایک ای میل کے ذریعے اور فون پر دی کہ سیکرٹیری دفاع امریکاجنرل گورڈن ڈف نے انکشاف کیا ہے کہ سی آئی اے نے ماہر تعلیم ڈاکٹر عافیہ کے اغوا کاروں 56 ہزار ڈالر دیے گئے تھے۔
ڈاکٹر فوزیہ نے کہا کہ اس موقعہ پر اپنی اور عافیہ کی امی عصمت صدیقی کی طرف سے پوری قوم کو پیغام دینا چاہتی ہوںکہ” عافیہ کے اغوا اور اس پر شرم ناک تشدد کی خبروںاور اس کی جدائی سے دکھ نہیں پہنچا ہے۔
مجھے تو اس حالت میں حکمرانوں کی بے بسی نے پہنچایا ہے“۔ ڈاکٹر فوزیہ نے اپنے پیغام میں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے کالم لکھ کر عوام میں آگاہی اور حکمرانوں کو یاد دھانی اور ان کے مردہ ضمیر کو جگانے کے لیے لکھنے کی درخواست کی۔
بجٹ، آئی ایم ایف اورسگریٹ پرٹیکس ۔۔؟
ڈاکٹر فوزیہ خود عافیہ کی رہائی کے لیے” عافیہ موومنٹ“ کے ذریعے لیے تحریک چلا رہی ہیں۔دنیا کے ساٹھ ملکوں میں ڈاکٹر فوزیہ نے اپنی بہن ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے کے مظاہروں کا انتظام کیا۔
پاکستان کے ساری سیاسی، مذہبی جماعتوں کے سربراہوں سے ملاقاتیں کرکے انہیں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی میں مدد کرنے کا کہتی رہیں۔
کئی سیاسی پارٹیوں کے جلسوں جلوسوں میں خود شریک ہو کر عوام کے سامنے اپنی بہن کی رہائی کی اپیل کرتی رہی۔ خودعافیہ موومنٹ کے تحت ریلیاں،جلسے، جلوس اور پریس کلبوں کے سامنے احتجاج اور دھرنے دیے۔
صحافیوں سے رابطے انہیں گھر دعوتوں پر بلا کر ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے کالم لکھنے کی درخواست کرتی رہیں۔ دستخطی مہموں اور ایل میل پر لاکھوں لوگوں کی طرف سے امریکہ کے صدر اوبامہ کو صدراتی عہدہ ختم ہونے پر ایک امریکی قانون کے مطابق آن لائین اپیل کرنا کہ وہ جاتے ہوئے اپنا حق استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا حکم جاری کرے۔ خود پاکستان کی عدالتوں میں عافیہ کی رہائی کی لیے قانونی جنگ لڑتی رہی۔
قائد اعظمؒکے مزار کے سامنے عوامی جرگہ منعقد کیاگیا جس میں راقم شریک تھا۔ اس وقت جرگے میں بتایا گیا کہ ڈاکٹر فوزیہ کو نواز شریف کا فون آیا ہے اور یکجہتی کا پیغام بھیجا ہے۔
نہ جانے وہ کونسی بات رہ گئی ہے جو ڈاکٹر فوزیہ نے اپنی بہن کی رہائی کے لیے نہ کی ہو۔ مگر پاکستان سارے حکمرانوں نے ڈاکٹر فوزیہ کو دھوکے میں رکھا۔ صرف زبانی تسلیاں ہی دیتے رہے۔
عملی طور پر کچھ بھی نہیں کیا۔ ہم بھی دوسرے صحافیوں کی طرح ایک عرصہ سے مقتدر حلقوں کے سامنے ڈاکٹر عافیہ کا مقدمہ رکھتے رہے۔ مگر کسی کے بھی سر پر جوں تک نہیں رینگی ۔
عمران خان عوام میں سیاسی پذیرائی کے عروج پر پہنچے ہیں۔ جب وزیر اعظم نہیں تھے تو ایک برطانوی صحافی یو آنے مریم رڈلے کے ساتھ مل کر کانفرنس کی تھی ۔مریم رڈلے ایک مشہو برطانوی ہیں۔
یہ افغانستان میں افغان طالبان کی جاسوسی اور خبریں اپنی اخبار اور مغرب کو پہنچانے کے لیے غیر قانونی طریقے سے بھیس بدل کر افغانستان میں داخل ہوئی تھی۔
جسے اس جرم میں افغان طالبان نے گرفتار کر لیا تھا۔ گرفتاری کے دوران جن افغان طالبان کے بارے میں مغرب وحشی درندے اور نہ جانے کون کون سے ناموں سے اپنے ہاں مشہور کر رکھا تھا نے عورتوں کے ساتھ اسلامی سلوک کے مطابق اس مریم رڈلے سے قید کے دوران اچھا رویہ رکھا۔ ایک خاتون ہونے کی وجہ سے پھر اسے رہا بھی کر دیا۔
مریم رڈلے افغانستان پر اپنی کتاب” طالبان کی قید میں“ اسلام لانے اورطالبان کے حسن سلوک کا لکھا ہے۔ لندن میں اس نے اسلام کا مطالعہ کیا۔ پھر مشرف بہ اسلام ہوئی تھی۔
مریم ریڈلے بتاتی ہیں کہ اس نے افغانستان میں دیکھا کہ جیل کے اندر ایک خاتون کی چیخیں سنائی دے رہی ہیں۔مذیر تحقیق سے اسے پتہ چلا کہ یہ تو پاکستان کی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ حافظہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے۔
جسے بزدل کمانڈو ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کے دوران چھ سو(600)دوسرے مسلمانوں کے ساتھ ڈالر کے عوض امریکا کو فروخت کیا تھا۔ اور اپنی کتاب”سب سے پہلے پاکستان“ میں فخر سے ذکر بھی کیا۔اب پاکستان سے بھاگا ہوا بگوڑا دبئی میں ذلت کی زندگی گزار رہا ہے۔
ڈاکٹر عافیہ کو کراچی کی سڑک سے جب وہ اپنے تین کمسن بچوں کے ساتھ اسلام آباد جا رہی تھی۔ تو30 مارچ 2003 ءکو اغوا کیا گیا ہے۔عمران خان نے مریم رڈلے کے ساتھ مل کر پاکستان میں پریس کانفرنس کی۔
اس کیس کو اپنی سیاست چمکانے کے لیے خوب استعمال کیا۔ ڈاکٹرعافیہ کی رہائی کے لیے عافیہ موومنٹ چلاے والی اس کی بہن ڈاکٹرفوزیہ سے ملاقات کی۔
ڈاکٹر عافیہ کی ضعیف ماں عصمت صدیقی سے اس کے گھر کراچی میں ملاقات کی اور کہا کہ اقتدار میں آ کر امریکا سے بات کر کے میں ڈاکٹرعافیہ کورہائی دلواﺅں گا۔
اس ہمدردی کی وجہ سے خواتین ووٹرں نے 2018ءالیکشن کے دوران عمران خان کو کامیاب کیا۔ مگر جب اقتدار میں آیا تودوسرے پاکستانی حکمرانوں کے طرح کچھ نہیں کیا ۔شاہد اسی مظلومہ ڈاکٹر عافیہ کی ضعیف والدہ کی بد
دعا سے اقتدار سے علیحدہ کر دیا گیا۔
نواز شریف بھی کراچی ڈاکٹر عافیہ کے گھر والدہ سے ملاقات کرنے گئے تھے۔ ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر ڈاکٹر عافیہ کو رہا کروائے گا۔
راقم کچھ مدت پہلے کراچی ڈاکٹر عافیہ کے گھر گیا۔ ڈاکٹرفوزیہ اور ان کی ضعیف والدہ سے ملاقات کی۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی پر بات چیت ہوئی۔
پیچھے دیوار پر نواز شریف کی تصویر اور اس ملاقات کا بینر لگا ہوا تھا۔ ایک دفعہ نواز شریف کے دور حکومت میں ڈاکٹرفوزیہ سات (7) دن اسلام آباد میں انتظار کر کے کیبنٹ کی میٹنگ کے لیے کازلسٹ پر اپنے بہن کا کیس بھی رکھوایا تھا۔ اصل میں بات یہ تھی کہ کراچی میں سندھ ہائی کورٹ نے ڈاکٹر فوفیہ کی پیٹیشن پر فیصلہ سنایا تھا کہ حکومت پاکستان امریکا سے قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ کرے۔
پھر اس معاہدے کے تحت ڈاکٹر عافیہ کو باقی قید پاکستان میں پوری کرنے کی سہولت مہیا کرے۔ مگرنواز شریف نے ڈاکٹر عافیہ کی ضعیف والدہ وعدے کے بوجود کچھ نہیں۔
ڈاکٹر فوزیہ نے سپریم کورٹ میں پیٹیشن داخل کی۔ مگر اس وقت کے چیف جسٹس نے اپیل خارج کرتے ہوئے کہا کہ ہم امریکا کو کچھ کرنے کا آڈر جاری نہیں کر سکتے۔
راقم چیف جسٹس کا فیصلہ سننے اسلام آباد کورٹ کے باہر کئی گھنٹے موجود تھا۔پیپلز پارٹی کے لیڈروں نے بھی ڈاکٹر عافیہ کی والدہ رہائی کا وعدہ کیا۔
مگر اس نے انہوں نے بھی ہری جھنڈی دیکھا دی۔ ہاںپیپلز پارٹی کے دور میں وزیر داخلہ رحمان ملک نے ڈاکٹر عافیہ کے تین بچوں میں دو بچے کہیں سے بر آمند کر کے ان کی نانی عصمت صدیقی ، خالہ ڈاکٹر فوزیہ اور رشتہ داروں کے حوالے کیے تھے۔ جو ان کو کریڈٹ جاتا ہے۔
تیسرے بچے ابھی تک کوئی اتا پتا نہیں۔جماعت اسلامی نے اقتدار میں نہ ہوتے ہوئے بھی عافیہ کی رہائی کے لیے ہر ممکن مدد کی۔ راقم جماعت اسلامی ضلع اسلام آباد کے شعبہ عملم و ادب قلم کاروان کا سیکر ٹیری ہے۔
رہائی مہم کی جد جہد چلانے والے تقریاًً سارے لوگ یا تو جماعت اسلامی کا حصہ ہے یا جماعت کی طرف سے تربیت یافتہ ہیں۔ اسی وجہ سے عافیہ کی رہائی کے لیے کوششیں کرتے رہتے ہیں۔
صاحبو! ڈاکٹر عافیہ کی دھکوں بھری داستان ہے۔ دنیا کی تاریخ میں کسی بھی ملک نے کسی بھی خاتون کو 86 سالہ سزا نہیں سنائی۔ ڈاکٹر عافیہ پر دہشت گردی کی دفعات لگائی گئیں تھی۔
مگر عدالت جرم ثابت نہیں کر سکی۔ عدالت نے دہشت گردی پر سزا نہیں سنائی۔ بلکہ افغانستان کی جیل میں جب عافیہ ایک کمرے میں قید تھی تو ہٹے کٹے امریکی فوجیوں پر بنددق تاننے اور فائر کر کے ایک فوجی کو زخمی کرنے کے جرم میں 86 سال کی سزا سنائی۔ جب یہودی جج نے یہ سزا سنائی تھی۔
وہاں موجود ایک امریکی ماہر قانون اوردانشور نے یہ فقرا کہا تھا۔ یہ سزا ڈاکٹر عافیہ کو نہیں دی گئی۔ بلکہ تعصب کی بنیاد پر امت مسلمہ کودسی گئی ہے۔
ڈاکٹر عافیہ 29 مئی تک 7000 دن قیدتنائی میں گزار رہی ہے ۔ دنیا کے سارے مسلمانوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ اپنی اپنی فیلڈ میںمظلومہ امت مسلمہ، ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی مہم میں شامل ہو جائیں ۔
جو کچھ ہو سکتا وہ ہم کریں۔ ہم مسلمان ہیں کبھی بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے۔ ایک دن آنے والا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ رہا ہو کر اپنے بچوں،ضعیف والدہ ،بہن اور رشتہ داروں سے آ ملے گی۔
ان شاہ اللہ۔