سیاسی بے راہ روی کا چلن اسقدر عام ہو گیا ہے کہ دانشمندی ،تدبراور ملی جذبے تحلیل ہو کر غائب ہو چکے ہیں ،ہر گزرتے دن ملک پیچھے کی جانب سرکتا جا رہا ہے اور عوام زمین میں میں دھنستے جا رہے ہیں ، قول وفعل میں تضاد سیاست کے مزاج میں رچ بس چکا ہے۔
سیاستدان ملکی مسائل کو پس پشت ڈال کر زاتی اغراض و مقاصد کے پیچھے دوڑ رہے ہیں اور اپنے سیاسی بیانیوں میں ملکی مسائل کو تڑکا لگانے کےلئے استعمال کرتے ہیں،قلیل مدت کےلئے آنے والے موجودہ حکمرانوں کی اولین ترجیحات میں مقدمات سے جان چھڑانا اور عمرانی مقبولیت میں کمی لانا ہی شامل ہے تاکہ آنے والے انتخابات میں سیاسی ماحول اپنے حق میں ساز گار بنایا جا سکے۔
دوسری جانب عمران خان کا سیاسی بیانیہ بھی اگرچہ ملکی مسائل کے گرد ہی طواف کرتا ہے مگر ان کا محور و مرکز بھی آنے والے انتخابات ہی ہیں ،گویا کہ حزب اقتدار و حزب اختلاف دونوں ہی اپنی اپنی سیاست کو پروان چڑھانے کی تگ و دو میں ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں جس سے ملک طویل مدتی سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو چکا ہے اور ملکی معیشت خطرناک حدوں سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔
مہنگائی ،بے روزگاری نے عوام کو تاریخ کی بدترین بدحالی سے دوچار کر رکھا ہے ۔ ملکی معیشت کا امتحانوں اور بحرانوں سے گزرنا تو کوئی نئی بات نہیں مگر موجودہ حالات انتہائی پریشان کن ہو چکے ہیں اور معاشی ابتری کی یہ بدترین صورتحال تو گمان میں بھی نہیں تھی۔
ایک جانب صوبائی حکومتیں معاشی مطالبوں کو لیکر وفاق کے خلاف سراپا احتجاج بن چکی ہیں تو دوسری جانب زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر چار سال کی نچلی سطح پر پہنچ چکے ہیں اور ملک میں ڈالر کی آمد کے راستے مسدود ہوتے جا رہے ہیں۔
ملک میں ڈالر لانے والے ذرائع برآمدات ،ترسیلات زر اور غیر ملکی سرمایہ کاری تنزلی کی جانب گامزن ہیں ،قبل ازیں سعودی عرب ، چین اور آئی ایم ایف سے ڈالر ملتے رہے ہیں مگر یہ تینوں ذرائع بھی موجودہ صورتحال میں کارآمد دکھائی نہیں دیتے ، درآمدی اشیاءکی ادائیگیوں کےلئے ڈالر کی کمی یا عدم دستیابی بھی ملکی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے۔
ادویات ،مشینری ،تیل ،مختلف شعبوں کا خام مال،حتیٰ کہ پیاز ،ادرک ،لہسن ،سبزی ،فروٹ اور ایسی ہی لا تعداد درآمدی اشیاءیا تو ادائیگیوں کی منتظر ہیں یا ان کی درآمدات میں تعطل پیدا ہو چکا ہے ۔ آئی ایم ایف پروگرام پر پڑنے والے تعطل کے باعث بھی پاکستان کے معاشی مسائل میں اضافہ ہوا ہے ،آئی ایم ایف کی جانب سے مکمل اعتماد کا اظہار نہ کرنے کے سبب دوسرے عالمی اداروں کی جانب سے بھی ڈالرز نہیں دیئے جا رہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک ، عالمی بینک سمیت دوست ممالک کی جانب سے مسقبل قریب میں ڈالرز کی فراہمی کے امکانات دکھائی نہیں دیتے ،حتیٰ کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کی مد میں ملنے والی رقوم کا بڑا حصہ بھی تا حال اعلانات تک محدود ہے ،بحالی کےلئے اعلان کردہ امدادی فنڈز کا بڑا حصہ ابھی تک جاری نہیں ہو سکا،کہا جا سکتا ہے کہ ملک میں ڈالر کی آمد کے بڑے بڑے ذرائع بند ہو چکے ں جس سے حالات بد سے بدترین ہوتے جارہے ہیں۔
معاشی ابتری یا کساد بازاری کا اندازہ ملک میں سونے کی تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی قیمتوں سے بھی لگایا جا سکتا ہے ،پاکستان میں سونا سرمایہ کاری کا ایک اہم ذریعہ ہے ،موجودہ حالات میں جب سٹاک مارکیٹ مسلسل مندی کا شکار چلی آ رہی ہے ،صنعتی شعبہ وینٹی لیٹر پر آ چکا ہے۔
پراپرٹی کا کام مفلوج ہو چکا ہے،فارن کرنسی کا کام ڈالر کی قلت کے باعث ٹھپ ہو چکا ہے ، ایسے میں مقامی سرمایہ کاروں کےلئے سونے میں سرمایہ کاری کو ہی محفوظ تصور کیا جا رہا ہے ،یہی وجہ ہے کہ حالیہ دنوں میں سونے کی قیمتوں میں اضافہ ہو چکا ہے ۔ معاشی بدحالی اتنی ہی بد ترین نہیں ہے جتنی کہ بیان کی گئی ہے بلکہ جس طرف بھی نگاہ دوڑائی جائے چشم کشاں اور ہوشربا حقائق سامنے آتے ہیں۔
ایک طرف ملک میں ڈالر کی شدید قلت ،دوسری جانب عالمی اداروں ،دوست ممالک کے دروازے بند، تیسری جانب سرکاری اعداو شمار کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر کم 7ارب ڈالر سے بھی کم ہو چکے جبکہ چوتھی جانب موجودہ مالی سال میں یعنی کہ آئندہ چھ ماہ کے دوران 30ارب ڈالر سے زائد کی بیرونی ادائیگیاں بھی واجب الادا ہیں۔
ملک کا نظام چلانے کےلئے ڈالر نہیں ہیں اتنی خطیر رقم کی ادائیگی کیسے ممکن ہو سکے گی ؟معاشی گرواٹ کے باعث ملک میں مہنگائی کی شرح25فیصد سے بھی تجاوز کر چکی ہے جبکہ معاشی ماہرین خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ موجودہ صورتحال ملکی کرنسی میں مزید گرواٹ کا سب بن سکتی ہے اور ڈالر کا ریٹ300روپے تک پہنچ سکتا ہے۔
جو بدحال معیشت کےلئے ایک اور بڑا جھٹکا ثابت ہو گا،بدحالی کے باعث بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان سے نکلنے کی جانب گامزن ہیں جس کے باعث معیشت پر مزید منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
اور صنعتی شعبہ کی سرگرمیاں ماند پڑتی جارہی ہیں ،معاشی ماہرین نے خدشات پیش کرتے ہوئے خبردار ہے کہ ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کی مزید طوفانی لہریں آنے کی توقع ہے اور عوام کو مزید مہنگائی کا بوجھ اٹھانا پڑے گا ، معیشت کی تباہی ، ملک کی بربادی اور عوام کی بدحالی کو اس نہج پر پہنچانے والوں سے اب بھی خیر کی کوئی توقع کیسے کی جا سکتی ہے ؟۔
پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے میں ڈاکٹر عبدلقدیر خان کی گراں قدر خدمات
سیاستدانوں کو یا تو ملک و عوام سے ذرا سی بھی دلچسپی نہیں ہے یا پھر اہلیت اور صلاحیت سے محرومی کے سبب انہیں حالات کا صحیح ادراک ہی نہیں،لیکن ملک کو معاشی غلامی میں دھکیلنے کی ذمہ داری کس پر عائد ہو گی ،اس تلخ سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں۔
کالم نگار::محمد شفیق پتہ::ڈاکخانہ نیلور،ٹھنڈا پانی،تحصیل و ضلع اسلام آباد ای میل::mshafiq.npc.isb@gmail.com
شناختی کارڈ نمبر::38401-5670309-3 موبائل نمبر:: 0313-5163884
آجمورخہ::13-12-2022