شیخ الحدیث مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ
اللہ تعالیٰ کا امت مسلمہ پر یہ بڑا کرم ہے کہ ہر دور میں وہ اپنے دین کی حفاظت، تبلیغ، اشاعت اور دفاع کاکام اپنے منتخب بندوں سے لیتا رہا ہے۔
اس طرح ایک طرف کتاب وسنت کے ابدی رہنماءاصول ہر دور میں اجاگر ہوتے رہتے ہیں اور دوسری طرف حق کے متلاشی حضرات کی رہنمائی ہوتی رہتی ہے ساتھ ہی مسلمانوں کی اصلاح کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
تاریخ اسلام کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ علمائے امت اور صلحائے امت صدیوں سے اس خدمت میں مصروف ہیں۔ کتاب وسنت کی تبلیغ واشاعت، علوم کی ترویج، فنون کی تدوین، مسائل کے استنباط اور نتائج کے استخراج کے عظیم خدمات کا ہی نتیجہ ہے کہ آج دین کے اصولوں اور جزئیات کا زبردست ذخیرہ ملت اسلامیہ کے پاس موجود ہیں یہ سب حضور کائنات حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اس تربیت کا نتیجہ ہے.
جس سے صحابہ کرامؓ فیض یاب ہوئے۔ اور انہوں نے یہ اثاثہ تابعین کو اور انہوں نے تبع تابعین کو منتقل کیا اور علمائے حق آج تک اس مبارک اور عظیم ورثے کی حفاظت کرکے اسے آئندہ نسلوں کو منتقل کر رہے ہیں۔
عجب قیامت کا حادثہ ہے، آستیں نہیں ہے
زمین کی رونق چلی گئی ہے، افق پہ مہر مبین نہیں
تری جدائی سے مرنے والے، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے
مگر تری مرگ ناگہاں کہ اب تک یقین نہیں ہے
جمعیت علماءاسلام س پاکستان کے سابق مرکزی سالار اعلیٰ اوربلوچستان کے قدیم اور معروف دینی درسگاہ الجامعہ بحرالعلوم جامع مسجد نور گھوڑا ہسپتال روڈ چمن کے بانی و مہتمم حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ ایسی شخصیت تھے کہ اس کے شجر سایہ دار تلے پہنچ کر ہر کس و ناکس راحت وسکون پاسکتا تھا۔ پورے پاکستان میں آپ ؒ کومولانا چمنی صاحب کے نام سے پہچانا جاتاتھا۔
حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ کی شخصیت ایسی دل نواز، حیات افروز اور ایسی باغ و بہار تھی کہ جس کی خصوصیات کو ایک مختصر تحریر میں سمانا مشکل ہے۔ ہر فن میں اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک خاص ملکہ عطاءفرمایا تھا۔
زندگی کے آخر میں حدیث کے فروغ میں بہت خدمت کی اور اس فن حدیث میں پورے پاکستان اور افغانستان میں اچھے اساتذہ علمائے کرام ہیں ان میں سے تھے۔ شیخ الحدیث مولانا فتح محمد چمنی صاحب ؒ ہر فن کی معلومات کا خزانہ تھے، وقت مناظر اسلام تھے۔
حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ خوبصورت، درمیانہ قد، سفید ریش بزرگ تھے۔ کوئی اگر آپ ؒ کو دیکھتا تا آنکھ ہٹانے کو اس کا دل نہ چاہتا۔ رنگ گوراسرخی مائل تھا۔
چہرے سے نورانیت ٹپکتی تھی، ڈاڑھی پوری سنت کی مطابق تھی، چہرہ بارعب تھا۔ غصے کے وقت ان کے چہرے پر جلال کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ بات کرتے تو ہر کوئی ان کی گفتگو سے ان کا گرویدہ ہوجاتا۔
صاف صاف الفاظ میں گفتگو فرماتے، جس سے کوئی بھی ان کی بات سمجھے بغیر نہیں رہتا۔ شیخ الحدیث مولانا فتح محمد چمنی کو اللہ تعالیٰ نے جو خطابت کا ملکہ عطاءفرمایا تھاوہ اہل عجم میں شاذونادر ہی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔خاص طور پر پشتو اور اردو تقریریں، جو اتنی بے ساختہ، سلیس، رواں اور شگفتہ ہیں کہ ان کے فقرے فقرے پر ذوق سلیم کو حظ ملتا ہے۔
ان میں قدیم و جدید اسالیب اس طرح سے جمع ہوکر یکجان ہوگئے ہیں کہ سننے والے جزالت وسلالت دونوں کا لطف ساتھ ساتھ محسوس کرتا۔ حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ کا شمار ایسے ہی علمائے حق میں ہوتا ہے جنہوں نے پوری زندگی علوم دینیہ کی خدمت اور امت مسلمہ کی اصلاح میں صرف فرمائی۔
وہ نہ صرف مفسرعہد مدبر عصر، عالم بے بدل، فاضل اجل اور فقیہ دوراں تھے بلکہ راہ سلوک کے بے مثل امام تھے۔ ان کی وفات سے نہ صرف علمی دنیا اجڑ گئی بلکہ دنیائے سلوک کا آفتاب غروب ہوگیا۔ وہ حقیقت میں ہمارے عظیم اسلاف کی یادگار تھے۔
وہ عالموں کے عالم تھے ان کی زندگی ہم سب کیلئے مشعل راہ اور نمونہ ہدایت تھی ان پر شاعر مشرق علامہ اقبال کا یہ شعر بالکل صادق آتا ہے
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
شیخ الحدیث حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ المعرودف مولانا چمنی صاحب صوبہ بلوچستان کے شہر چمن میں 1953 میں حاجی کرم خان کاکوزئی کے گھرگھوڑا ہسپتال چوک چمن میں پیدا ہوئے۔ 1961 میں تعلیم کے حصول کا آغاز کیا اور ابتدائی تعلیم کلی ارمبی کاکوزئی قلعہ عبداللہ میں اپنے دو ماموں مولوی عبدالستار نوراللہ مرقدہ اور مولوی محمد میر نوراللہ مرقدہ اور اپنے آبائی وطن چمن میں جمعیت علماءاسلام پاکستان کے مرکزی نائب امیر اور سابق ممبر قومی اسمبلی شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالغنی شہیدنوراللہ مرقدہ اور کلی لاجور گلستان میں پیر سید حاجی علی آغا اور سید قطب الدین آغا صاحبان سے حاصل کی اور بعد ازاں 1972 میں اعلٰی تعلیم کیلئے مدرسہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک اور مدرسہ اشرف العلوم باغبانپورہ گوجرانوالہ گئے۔
وہاںشیخ الحدیث ، استاد العلماء اور بانی دارالعلوم حقانیہ حضرت مولاناعبدالحق نوراللہ مرقدہ اور ممبر قومی اسمبلی قاضی حمیداللہ جان سے پڑھتے رہے۔ آخر میں بیماری کی وجہ سے 1980میں آخری دورہ حدیث مدرسہ مطلع العلوم کوئٹہ سے کرکے دینی علوم سے فراغت حاصل کی۔
مولوی صاحب مرحوم نے 1980 سے دو اگست 2022 تک تدریسی خدمات کیساتھ سیاسی اور سماجی خدمات بھی سرانجام دیتے رہے۔ دو اور تین اگست کے درمیانی شب ساڑھے دو بجے پر دل کی دورہ پڑنے اور کوئٹہ کے سول ہسپتال میں انتقال فرماگئے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ انہی عظیم ہستیوں میں سے ایک ہیں جن سے اللہ رب العزت نے بڑے بڑے کام لئے جن کا وجود پورے ملک کیلئے ایک عظیم نعمت تھا جن کے کردار پر آج تک کوئی انگشت نمائی نہیں کرسکا دوست تو دوست دشمن بھی انکے کردار کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکے۔
ذاتی اوصاف سے مولانا صاحب ایک بلند پایہ انسان تھے ہر لحظہ مسکرانے کی عادت مزاج میں نرمی، طبیعت میں انکسار، استقامت، عزیمت، علم، حلم ووقار،تدبر، فراست، ذہانت اور اخلاق کو گوندھ کراگر انسانی وجود تیار کیا جائے تو وہ حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ ہوں گے۔
حضرت کی زندگی کے تمام گوشے آج ہمارے سامنے ہیں۔بظاہر تو ہر کوئی دینداری و پاکبازی کا دعویدار ہوتا ہے، لیکن حقیقت کی کسوٹی پر کچھ ہی لوگ اتر پاتے ہیں اسی کیساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج دنیامیں صاحب دل اور خداترس لوگوں کی کمی ضرور ہیں لیکن نایاب نہیں۔
کائنات کا وجود ہی ایسی لوگوں کے دم سے ہیں جن کے دل خوف خدا سے لبریز ہوں اور جن کے دماغ پر ہمہ وقت آخرت کا فکر سوار ہو، جن کے زبانیں ذکر الٰہی سے تروتازہ اور جن کی ہر حرکت اور زندگی کے ہر ہر سانس اطاعت الٰہی اور سنت نبوی کا نمونہ ہو۔
انھیں عظیم انسانوں میں ایک نام حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ کا نمایاں ہے اور وہ ایک عظیم انسان اور ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ ان کے دل میں اللہ رب العزت اور اس کے رسول حضور کائنات حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت، ملت اسلامیہ کا درد اور پوری انسانیت سے خیرخواہی کا جزبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہواتھا۔
دراصل حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ کی شخصیت کی تصویر اتنی پھیلی ہوئی ہے اور اسکے درخشاں گوشے سامنے ہیں کہ ان سب کا احاطہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مولانا صاحب کے اندر ایک داعی حق، ایک متکلم اسلام، ایک مفکر حیات، ایک ادیب، ایک سیاسی قائد، ایک تنظیم کار اور ایک بیباک مجاہد بیک وقت جمع تھے۔
ان کی شخصیت سیاسی وتاریخی اور علمی وانقلابی ہر دو لحاظ سے بے حد اہم ہے۔ اور پھر اس کیساتھ حسن کردارکے اجتماع نے ان کو اپنے دور کی ایک عبقری شخصیت بنادیا ہے مگرکسی ایسی جامع شخصیت کے حسن کو دوسروں تک منتقل کرنا ٹیڑی کھیر ہے۔اسکے یہ معنی نہیں کہ اس کام کو کیا ہی نہ جائے۔کوشش ہی کی راہ کامیابی کی منزل کو جاتی ہے۔
حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ کی انتہائی نمایاں خصوصیت تھی کہ سیاست اور علاقائی مصروفیات میں اس درجہ انہماک کے باوجود ان کا علمی استحصار اور علمی ذوق پوری طرح برقرار رہا۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا فتح محمد چمنی نور اللہ مرقدہ اپنے زندگی میں نظریہ سیکولرزم کے بہت مخالف تھے۔
سیکولرزم نظریئے کیخلاف ایک کتاب بھی تصنیف کی تھی۔ جب کبھی کسی علمی مسئلے کی بات آتی تو معلوم ہوتا کہ اس کے تمام مالہ و ما علیہ پوری طرح مولانا صاحب کے نگاہ میں ہیں اور جب اس موضوع پر بات کرتے تو ایسا محسوس ہوتا جیسے کسی علمی کتاب کا درس ہورہاہے۔
بلوچستان کے شہر چمن کا ایک قدیم دینی اور تعلیمی ادارہ مدرسہ بحرالعلوم چمن گھوڑا ہسپتال روڈ چمن میں ایک تعزیتی مولانا فتح محمدچمنی کانفرنس سے حضرت مولانامفتی فدا محمد، مولاناندا محمد حقانی اور حافظ سیف الرحمان صدیق نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ جامع الکمالات انسان تھے۔
اللہ تعالٰی نے بہت سی خوبیوں سے انہیں نوازا تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں کسی عالم دین میں بیک وقت اتنے کمالات جمع نہیں دیکھے۔ آپ بہت بڑے محدث، فقہی، فن منطق کے ماہر فلسفی، اصول پسند، فصیح و بلیغ ہونے کیساتھ ایک عظیم مقرر بھی تھے۔
مجمع میں تمام حاضرین کو اپنے دلائل اور اخلاص سے متاثر کرلیا کرتے تھے کسی کو تابع و گرویدہ بنانا انہی کاکام تھا۔ آپ ظاہری و باطنی، دینی و دنیاوی، علمی اور غیرعلمی کے تمام خوبیوں کا مجموعہ تھے۔
کیپٹن شبیر شہید‘ شاہ کبیر کی جان
بہر حال آپ کی پوری زندگی خدمت اسلام میں گزری اور نہایت لطیف مزاج کے مالک تھے اور آپ کا ہم سے جدا ہونا ایک صبر آزما سانحہ ہے جس میں چشم ماتم گسار خداجانے کب تک اشک بار رہے گی اور موت کے ظالم ہاتھوں نے ایک ایسی ہستی کو ہم سے جدا کردیا جس سے ملک کے تمام مذہبی لوگ ہدایت حاصل کرتے تھے۔
اللہ رب العزت ہمیں ان کے اسلامی نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطاءفرمائیں۔ (آمین ثم آمین)