آخر یہ کب تک چلے گا؟؟؟
تحریر:ساجد علی شمس
آج کل ملک پاکستان میں ترقی کے دعوے کیے جارہے ہیں لیکن یاد رکھیے گا یہ سب جھوٹ ہے،جس ملک میں دوسری سہولتیں تو درکنار سرکاری ہسپتالوں میں غریبوں کیلئے صحت کی سہولیات میسر نہ ہوں اور جدید مشینوں کا فقدان ہو وہاں اگر کامیابی کا ڈھونگ رچایا جائے تو وہ صرف عوام کو بےوقوف بنانا ہی ہے اور کچھ بھی نہیں۔صحت ہزار نعمت ہے۔
انسان کو اگر اس نعمت سے محروم کردیا جائے تو اس کی جان تک جاسکتی ہے۔حکمرانوں کی پوجا کرنے والے لوگوں کو پتہ نہیں شرم کب آئے گی کہ کسی بھی بنیادی مقصد کی تکمیل کے بغیر وہ اپنے نمائندوں کو سپورٹ کر رہے ہیں۔میں آج یہ تحریر بہت دکھ اور صدمے کی حالت میں لکھ رہا ہوں۔
لوگوں کی ناجائز سپورٹ اور خوشامد نے سیاستدانوں کو اور حکمرانوں کو کام کاج سے مکمل باغی کردیا ہے۔میری والدہ محترمہ بھی اسی لاپرواہی کا شکار ہوتے ہوئے اللہ پاک کو پیاری ہوگئیں۔
چودہ اپریل کو اگر ان کا علاج ٹھیک طرح سے ہو جاتا تو شاید وہ چند دن اور ہماری آنکھوں کو تشفی مہیا کرسکتیں لیکن جو اللہ پاک کو منظور تھا وہی ہونا تھا۔میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہمارے ہاں نہ علاج کی سہولت ہے نہ روزگار کی،نہ تعلیم کی سہولت ہے اور نہ خوراک کی، ہاں اگر سہولت ہے تو صرف اور صرف اشرافیہ کو حاصل ہے۔
غریب تو پہلے بھی سڑکوں پر بچے پیدا کرتے تھے اور اب بھی،غریب تو پہلے بھی ہسپتالوں میں جانے سے پہلے ہی مرجاتے تھے اور اب بھی،غریب تو پہلے بھی سسک سسک کر اور بلک بلک کر مرتے تھے اور اب بھی وہی حال ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کوئی ان کے سامنے بولتا کیوں نہیں،اپنے اصولی حق کیلئے کوئی آواز کیوں نہیں اٹھاتا،کیا ان غریب لوگوں نے اسی طرح سسک سسک کر مرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔
اپنے بنیادی حق سے محرومی کے بعد بھی ان کو کوئی دکھ نہیں۔ہر پانچ سال بعد اقتدار کی ہوس لیے یہ سیاستدان لوگوں کے دروازے پر اس طرح دستک دیتے ہیں جیسے ادھار لینے آئے ہوں۔
لیکن ہماری عوام پھر بھی ان کو آنکھوں پر بٹھانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتی۔گورنمنٹ کے ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں، سی۔ٹی سکین مشینیں نہیں ہیں اگر ہیں بھی تو چار سالوں سے ان کو ٹھیک کروانے والا کوئی نہیں۔میری والدہ محترمہ کی اچانک رات کو طبیعت خراب ہوگئی۔
ان کو ٹی۔ایچ۔کیو چیچہ وطنی میں لے گئے وہاں پر سوائے آکسیجن کے اور کوئی سہولت بھی میسر نہیں تھی۔سر میں درد کی شدت میں بہتری نہیں آرہی تھی،انہیں ساہیوال ریفر کردیا گیا، ساہیوال پہنچے وہاں پر سی۔ٹی۔سکین مشین ہی خراب تھی۔
مجھے جہاں تک یاد ہے آج سے تین سال پہلے میں اپنے ماموں کے ساتھ گیا تھا اسی ہسپتال میں،اس وقت بھی یہ مشین خراب تھی اور آج بھی وہ خراب ہے،یہ کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے۔
میں نے اپنی والدہ کو ٹوٹے پھوٹے سٹیچر پر لٹایا اور دھوپ میں ڈاکٹر کی بتائی ہوئی لیب پر دل پر پتھر رکھ کر لے گیا،اس ٹائم مجھ پر کیا بیت رہی تھی یہ یا تو میں جانتا ہوں۔
یا میرے والد صاحب اور یا میرا اللہ پاک،دھوپ میں سٹیچر پر لٹاتے ہم لیب پر پہنچے، لیب تقریباً ہسپتال سے ایک کلو میٹر فاصلے پر تھی۔وہاں پہنچے تو لیب والے کہتے کہ بجلی ہے ہی نہیں بجلی تقریباً دو بجے آئے گی۔
اس وقت صبح کے نو بجے تھے۔میں نے ان سے کہا کہ آپ موجودہ پیسوں سے ٹرپل پیسے لے لیں جرنیٹر چلا لیں انہوں نے کہا نہیں،ہمیں اپنا نمبر دے دیں جب بجلی آئے گی ہم آپ کو کال کر لیں گے۔
میں اپنی ماں کو زندگی اور موت کی کشمکش میں دیکھتا ہوا واپس ہسپتال کی طرف جانے لگا۔جب ہم ہسپتال کے بلکل دروازے پر پہنچ گئے تو مجھے کال آئی کہ بجلی آگئی ہے مریض کو لے آئیں۔اس وقت ہونے والے درد کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں کہ مجھ پر اور میرے والد پر کیا گزری ہو گی۔
ہم پھر دھوپ میں لیب کی طرف لے جانے لگے۔وہاں پر سی۔ٹی سکین کرواکر واپس ہسپتال کی طرف جانے لگے۔وہاں پہنچے تو ڈاکٹر نے رپورٹ چیک کر کے دوائی اور انجیکشن لکھ کر دیے۔
میڈیکل سٹور بھی ہسپتال سے باہر تھے۔تقریباً اس سارے عمل میں بھی آدھا گھنٹہ لگ گیا۔میں واپس آیا تب جاکر ٹریٹمنٹ کا آغاز ہوا۔والدہ کو بوتل لگ گئی۔
ہمارے لبوں سے دعائیں جاری تھیں۔تقریباً نصف بوتل لگ چکی تھی اور اس کے دوران ہی میری والدہ کی روح پرواز کرگئی۔اللہ پاک میری والدہ کے درجات بلند فرمائے،آمین۔۔۔
ہم واپس گھر کو آنے لگے،ایمبولینس والا بھی اپنے پیسے بنانے کیلئے تگ و دو کرنے لگا۔ہم کیا کرسکتے تھے،مجبوری تھی،مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھایا گیا۔تحریر لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں سہولیات ناہونے کے برابر ہیں۔چاہے ٹی۔ایچ۔کیو ہو یا ڈی۔ایچ۔کیو۔سہولیات کا فقدان لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیل رہا ہے،ناجانے کتنے لوگ اسی غفلت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
لیکن ان کی آہ و بکا کا کسی پر کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔میں اس تحریر کی وساطت سے،اس اخبار کی وساطت سے حکومت پاکستان سے گزارش کرتا ہوں کہ خدارا ہمیں معاف کر دیجیے،ہمیں بخش دیجیے،ہمیں ووٹ دینے کی اتنی بڑی سزا نہ دیجیے۔
آپ کے تو چھینکوں کے علاج بھی ملک پاکستان سے باہر ہوتے ہیں لیکن غریبوں کے علاج سرکاری ہسپتالوں میں کیوں نہیں ہو رہے۔سب سے اہم اور زیادہ سہولیات سرکاری ہسپتالوں میں کیوں نہیں ہیں۔
نہ کوئی ڈسپنسری،نہ کوئی سی۔ٹی۔سکین مشین لیب،نہ کوئی اچھی حالت میں ویل چیئرز،اور نہ کوئی اچھی حالت میں سٹیچرز،اگر ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کے دلوں میں مریضوں کا درد ہے تو انہیں سہولیات کے حصول کیلئے ضروری احتجاج کرنا چاہئے۔اگر وہ بھی احتجاج نہیں کریں گے تو ناجانے کب تک یہی اموات کا سلسلہ جاری رہے گا۔
زندگی اور موت فقط اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن ڈاکٹر بھی کوئی درجہ ضرور رکھتا ہے۔خدارا۔۔۔سرکاری ہسپتالوں میں ایمرجنسی کی صورت میں استعمال ہونے والی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پورا کیا جائے۔
بنیادی ضروریات کی کمی کو پورا کیا جائے۔میری والدہ محترمہ تو اس لاپرواہی کی بھینٹ چڑھ گئیں۔کسی اور کی والدہ کو اس غفلت کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔کاش۔۔۔۔ہر کوئی ایسا ہی سوچتا۔۔۔اور اپنے لیے آواز بلند کرسکتا۔۔۔۔کاش۔۔۔اے کاش۔
Famous Urdu columnist Sajid Ali Shmmas Hospital Poor Condition Video