اتحادی حکومت کا امتحان!
اس حقیقت سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ لوگ عمران خان سے محبت کرتے ہیں اور ان کو اپنا لیڈر تسلیم کرتے ہیں۔
گوکہ سابق وزیراعظم عمران خان کے پاس ٹیم نہیں تھی،یہ ہمارے ملک وملت کی بدنصیبی اور اُس وقت کی متحدہ اپوزیشن ( اب موجودہ اتحادی حکومت) کی خوش نصیبی ہے۔
اگر عمران خان کے پاس تگڑی ٹیم ہوتی تو ان کے مخالفین کو کم ازکم دس پندرہ سال انتظار کی صعوبت برداشت کرنی پڑتی۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے آس پاس اکثریت ایسے افراد کی ہے جو مختلف پتن اور گھاٹ سے پانی پی کرآئے تھے اور بعض افراد کا تعلق امریکا اور برطانیہ یعنی سات سمندر پارسے ہے۔
بعض افرادایسے ہیں کہ جوہر حکومت میں وزارتوں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ بلاشبہ ایسے افراد کسی سے مخلص نہیں ہوتے ہیں بلکہ چڑھتے سورج کے پجاری ہوتے ہیں۔
ایسے افراد کا ملک و ملت کےلئے کوئی نمایاں حصہ نہیںہوتا اور ایسے افراد کا ملک یا عوام کی بھلائی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ۔
عمران خان کا 2018ءمیں ایلیکٹیبل (لوٹوں)کا اکٹھا کرنے کا تجربہ بھی کارگرد ثابت نہ ہوسکا۔ اس وقت عمران خان یہ بھول گئے کہ فصلی بیٹرے فصل کے مطابق پرواز کرتے ہیں، جس کھیت میں فصل ہو ،وہاں چلے جاتے ہیں۔2018ءالیکشن کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان سے کافی غلطیاں سرزد ہوئیں اور آخر میں اسٹیبلشمنٹ سے بھی پنگا لیا ۔
عمران خان نے مہنگائی،بجلی ،گیس ، پٹرولیم مصنوعات میں ظالمانہ اضافہ کیا جس سے سب لوگ متاثر ہوئے۔اگر سابق وزیراعظم عمران خان مہنگائی ، بجلی، گیس ، پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ نہ کرتے اور اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ نہ کرتے تو وہ کم ازکم 2028ءتک حکومت کرتے ، بحرحال جب اس کرسی پر کوئی بیٹھتا ہے تواس میں ایسا خمار اورکَیف ہے کہ وہ تقریباً سب کچھ بھول جاتا ہے۔
سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اسی کرسی کے بارے میں کہا تھاکہ میری کرسی طاقتورہے ، گو کہ انھوں نے ملک وملت کے لئے بہت اہم اور نمایاں کام کیے تھے جو آج بھی یاد کیے جاتے ہیں ،وہ ایک عوامی اور مقبول لیڈر تھے لیکن ان کا انجام اچھا نہیں ہوا، لہذااس کرسی پر بیٹھ کرغرور و تکبر کرنے کی بجائے اللہ کا فضل وکرم سمجھنا اور ان کا شکرادا کرنا چاہیے اوران کی مخلوق کی بھرپور خدمت کرنی چاہیے۔
سابق وزیراعظم عمران خان اپنی کوتاہیوں کے باعث اقتدار سے محروم ہوگئے لیکن عوام میں ان کی مقبولےت میں کوئی خاص کمی نہیں آئی اور وہ اتحادیوں کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں ،اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اتحادی وہ غلطیاں نہ دہرائیں جو سابق وزیراعظم عمران خان نے کی تھی اور اتحادی حکومت کی عوامی سطح پرا میج اتنا اچھا نہیں ہے۔
لوگ ملک کی موجودہ صورت حال کا عمران خان سے زیادہ ان کو ذمہ دار سمجھتے ہیں کیونکہ انھوں نے اس ملک پر متعدد بار حکومتیں کیں اور اب ان کے پاس کسی بہانے کا جواز نہیں ہے۔بلاشبہ وزیراعظم شہباز شریف ایک محنتی اور جفاکش انسان ہیں اور وہ میچ کا کسی بھی وقت کایا پلٹ سکتے ہیں۔
اسی طرح آصف علی زرداری بھی مضبوط کھلاڑی ہیں اور مولانا فضل الرحمن اور دیگر پارٹیوں کے سربراہان مہارت رکھتے ہیں لیکن اب مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی ، جمعیت علماءالسلام اور ایم کیو ایم سمیت سب کا کڑا امتحان ہے، وہ کیسے متحد رہتے ہیں اور کیسے عوام کو ڈےلیور کرتے ہیں؟
اگر وہ ملک وملت کی بجائے وزارتوں اور ذاتی مفادات کے لئے لڑتے رہے تو پھر ان کے لئے خطرے کی گھنٹی کسی بھی وقت بج سکتی ہے۔ اتحادی حکومت کو سب سے پہلے مہنگائی پر کنٹرول کرنا ہوگا، آئی اےم ایف پروگرام سے نکلنا ہوگا ۔ آئی ایم ایف کے ہوتے ہوئے مہنگائی میں کمی بالکل ناممکن ہے اور اس سے افراط زر میںمزید اضافہ ہوگا۔
آئی ایم ایف کی پالیسیاں انسان دشمن ہیں۔بجلی ، گیس ، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ تو چھوٹا بچہ بھی جانتا ہے ۔
افراط زر میں اضافہ ملک اور اتحادی حکومت کےلئے انتہائی نقصان دہ اور مہلک ثابت ہوگا۔ اس وقت آئی ایم ایف سے نجات اور ملک کی ترقی کا راستہ یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ بچت کی جائے اور فضول خرچ سے پرہیز کیا جائے۔اس کےلئے ایلیٹ طبقے کو قربانی دینی ہوگی اور قربانی کے بغیر نجات اور چھٹکارہ ممکن نہیں ہے۔
ایک درجہ چہارم کا ملازم فری بجلی ، گیس ، پٹرول اور فون کے بغیر گذارہ کرسکتا ہے تو ہمارے قابل احترام وزیراعظم صاحب یا کوئی اور کیوں نہیں کرسکتے ہیں ؟ مدعا یہ ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں کسی کو بھی فری بجلی ، گیس ، پٹرول اور فون نہ دیا جائے بلکہ ہر کوئی اپنے جیب سے خریدیں،اس سے ماہانہ اربوں روپے کی بچت ہوگی۔
صدر، وزیراعظم ،گورنرز، وزرائے اعلیٰ ہاﺅسز اور دیگر میں ملازمین کی تعداد کو کم سے کم کیا جائے اور اخراجات کم کیے جائےں،سرکاری دعوتوں کا سلسلہ بالکل ختم کیا جائے اور سادگی اپنائی جائے۔بہتر ہوگا کہ گورنرز اوروزرائے اعلیٰ ہاﺅسز کو یونیورسٹیوں میں تبدیل کریں ،اس سے ملک وملت کا زیادہ فائدہ ہوگا۔علاوہ ازیں دوست ممالک سے کم ازکم ریٹ پر گیس اورپٹرولیم مصنوعات حاصل کریں۔
زیادہ سے زیادہ پن بجلی پیدا کریں، پن بجلی کےلئے آبی ذخائر کے ساتھ ساتھ دریاﺅں اور نہروں پر ہیڈرو پاور کے ذریعے بجلی پیدا کرنا ضروری ہے۔بجلی کی چوری کو روکنا ہوگا اور اس کےلئے تھرڈ پارٹی کی خدمات لینی ہونگی ۔پاکستان میں کرپشن بہت زیادہ اور ہر لیول پر ہے۔ کرپشن کو ختم کرنے یا کنٹرول کے بغےر ملکی حالات بہتر نہیں ہوسکتے۔
کرپشن ہمارے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔نیب کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے،اس لئے نیب کو غیر جانبدار اور فعال بنانا ہوگا یا اس کو ختم کرنا ہوگا اوراس کی جگہ کوئی ایسا ادارہ بنانا ہوگا جو کرپشن کوختم کرنے کےلئے فوراً ایکشن لے اور رزلٹ دے ۔
کرپشن ختم کرانے سے اتحادیوں پر لگا الزام بھی دھل جائے گا اور ان کا امیج بہتر ہوجائے گا۔اتحادی حکومت انتخابی اصلاحات کریں تاکہ حکومتیں صرف اور صرف عوام کے ووٹ سے آئیں،اس سے حکومتوں اور ایمپائر پر الزام نہیں آئے گا۔بھرتیاں صرف میرٹ پرہوں، سیاسی طور پر بھرتی ملازمین کو فارغ کریں اوران کی جگہ میرٹ پر بھرتیاں کی جائےں،سیاسی بھرتیوں کا سلسلہ بند کرنا ہوگ۔
ا تاکہ اداروں کی کارکردگی بہتر ہوسکے، خسارے پر چلنے والے اداروں کی نجکاری ضروری ہے،ڈالر کو قابو میں کرنا ہوگا،صنعت کاروں اور کسانوں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کو ریلیف دینا ہوگا۔عوام کو ریلیف دینے کی بجائے اتحادی وزارتوں یا عہدوں پر لڑتے رہے تو پھران کے پاس ٹائم نہیں ہوگا۔
اگر عمران خان نے آئندہ الیکشن میں ٹکٹوں کی تقسیم میں غلطی نہ کی اور فصلی بیٹروں کی بجائے پارٹی کے نظریاتی ورکرز کو ٹکٹ دیے تو پی ٹی آئی کے دو تہائی اکثریت سے آنے کے چانسز ہیں اور اگر پی ٹی آئی حکومت نے سابقہ غلطیوں کو نہ دوہرایا توعمران خان اتحادیوں کو دن کی روشنی میں تارے دکھائیں گے اور ان کو سخت مشکلات میں ڈالیں گے۔
Famous Urdu Columnist Khalid Khan | Imran Khan’s New Move after Lahore Jalsa
پھر اتحادیوں کا حکومت میں آنا ناممکن نہیں لیکن مشکل ضرور ہوگا ۔اتحادی حکومت کا یہ مشکل اور کڑا امتحان ہے ،اب دیکھتے ہیں کہ یہ اس امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں یا آپس میں دست و گریباں ہوتے ہیں۔
اتحادیوں کا مستقبل ان کے ہاتھوں میں ہے اور اب وہ اس گولڈن چانس سے فائدہ اٹھاتے ہیں یا نقصان؟صرف چند ہفتے یا چند مہینے انتظار کرنا پڑے گا ،سب کچھ سامنے آجائے گا اور دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟
Khalid Khan Urdu ColumnistEdit