انصاف میں تاخیر
انصاف میں تاخیر انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہے ،پاکستان میں عدالتی نظام اور پولیس کے اندازِ تفتیش اور ”چمک“کی بدولت انصاف کا ملنا ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔مظلوم اور بے گناہ لوگ سال ہاسال کسی بھی جھوٹے مقدمے یا بوگس”ایف آئی آر “ کی وجہ سے عدالتوں میں خوار ہوتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق عدالتوں میں چلنے والے 75فیصد کیس درج شدہ ایف آئی آر کی روشنی میں قابل سماعت ہی نہیں ہوتے ۔ایسے بے بنیاد کیس ”ایف آئی آر “میں درج وجوہات سے ہی عیاں ہو جاتے ہیں۔
اور جہاں کسی کیس میں مدعی اور مدعا علیہ کے علاوہ 4یا 6افراد یا اس سے زیادہ بندوں کو بھی نامزد کردیا جاتا ہے ،وہیں وہ کیس اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ پاتا ۔دیکھا گیا ہے کہ ایک بے گناہ شخص سال ہا سال کیس بھگتنے کے بعد”بری “کردیا جاتا ہے۔
اور فیصلے تک بندہ جتنا عرصہ جیل میں گذارتا ہے اس کا ازالہ کرنے کی کوئی تدبیر نہیں کی جاتی ۔جھوٹا کیس کرنے والے کے خلاف بھی عدالت کوئی ایکشن نہیں لیتی ،اور متاثرہ شخص جس نے کئی برس تاریخیں بھگتی ہوں اور خواری بھی کاٹی ہو، وہ جھوٹے مدعی کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کرنے اور ہرجانہ وجرمانہ وصول کرنے کا حق رکھنے کے باوجود دوبارہ انصاف کےلئے عدالت کا رخ نہیں کرتا ۔
ملک بھر میں ایسے بیسوں کیس چل رہے ہیں کہ جن کے فیصلے فریقین کے مابین باہمی گفتگو و شنید سے طے کئے جا سکتے ہیں ،لیکنمتاثرین یا مدعیاں اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے کچہریوں میں ذلیل وخوار ہو رہے ہیں ۔
گذشتہ چند دنوں میں ہونے والے بعض واقعات میں ملوث مجرمان کے خلاف کیس عدالتوں میں زیر سماعت ہیں ۔لیکن ایسا نظر آتا ہے کہ ان میں بھی ”چمک“ہی اپنا کرشمہ دکھائے گی اور مجرم بّری ہوجائیں گے ۔
اسلام آباد میں عثمان نامی شخص کے خلاف کیس ابھی تک سست روی سے چل رہاہے کہ جس میں ایک لڑکی کے ساتھ پلازہ کے مالک نے زیادتی کی ،تضحیک کی ، اسی طرح نورمقدم کیس میں بھی مجرم ظاہر جعفرکو بّری کروانے کےلئے اسے” ذہنی مریض “قرار دئیے جانے کی درخواست دائر کی گئی ہے ۔
supreme court of pakistan columns in urdu Video
خدشہ ہے کہ مذکورہ دونوں کیسوں میں ملزمان کو ریلیف دینے کی کوئی راہ نکال لی جائے گی ۔جبکہ یہ مجرمان کسی رعایت کے مستحق نہیں۔
3دسمبر 2021ءکو سیالکوٹ میں ایک فیکٹری منیجر ارتھنا کماراکو جس کا تعلق سری لنکا سے تھا ۔۔کو محض ایک پوسٹر اتارنے کے جرم میں تشدد کرکے قتل کردیا گیا تھا بعدازاں اس کی لاش کو گھسیٹ کر سڑک پر لایا گیا اور پیٹرول چھڑک کر اسے جلا دیا گیا ۔
اس واقعہ میں ملوث نوجوانوں نے جو ظلم ایک پردیسی کے ساتھ کیا ہے،اسے الفاظ میں بیان کرنا محال ہے ۔گو کہ وزیر اعظم عمران خان نے انصاف کی یقین دہانی کروا ئی ہے ۔
امریکی صدر نکسن اور دین ِاسلام
لیکن ایسا نظر آتا ہے کہ یہاں میں کچھ مصلحتیں انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔اس واقعہ میں نوجوانوں کا جوش جنون اس امر کا ثبوت ہے کہ انہیں حکومتی رٹ کا قطعاً کوئی خوف نہ تھا ۔وائرل کردہ وڈیوز واقعہ کی سبھی کہانی کھول رہی ہیں ۔
پاکستان میں سرعام پھانسی دینے کا رواج نہیں ،اور اس میںسب سے بڑی رکاوٹ امریکہ سمیت دنیا کی وہ سپر طاقتیں ہیں جو اس سزا کو بنیادی انسانی حقوق کے منافی قرار دیتی ہیں ۔
پاکستان میں اجتماعی زیادتیوں ، قتل و غارت،چوری ،ڈاکے کی وارداتیں روز بروز بڑھ رہی ہیں ۔ایسے میں حکومت کا ان واقعات کی روک تھام کےلئے اقدامات نہ اٹھانا ایک بڑ االمیہ ہے ۔
کہتے ہیں کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ۔۔۔۔اور ہماری قوم کے یہ بے لگام نوجوان حقیقی معنوں میں باتوں سے ماننے والے نہیں ۔ توہین مذہب کی آڑ میں جس کا جی چاہتا ہے وہ اللہ کی مخلوق کو قتل کردیتا ہے ۔لیکن حکومت یا عدالتیں ایسے مجرموں کو نشان عبرت بنانے سے گریزاں رہتی ہیں ۔
کافی وقت گزر گیا ، قتل وغارت گری کے واقعات مسلسل بڑھ رہے ہیں ،طویل عدالتی انصاف کی وجہ سے لوگ اکثر واقعات کو بھول جاتے ہیں ۔جب معاملہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے تو عدالتیں مجرموں کو ”شک“کا فائدہ دے کر بری کر دیتی ہیں ۔
اب تو معاشرہ ظلم ،ناانصافی، انتقام اورعدم برداشت کے اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ جہاں ملکی امن و سلامتی کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں ۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں سے وابستہ افراد کی جان و مال بھی اب تو محفوظ نظر نہیں آتی ۔اسلام آباد جو ملک کا دارالحکومت ہیں ،میں بھی آئے روز عوام اور پولیس کے جوان قتل کئے جا رہے ہیں ۔جو ایک المیہ ہے ۔
کھربوں روپیہ امن و امان کی بحالی اور لوگوں کی جان و مال کے تحفظ کے نام پر خرچ کیا جا رہا ہے ۔لیکن عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے ،اب تو لوگ گھروں میں بھی خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں ۔
جابجا سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہونے کے باوجود ہم اتنے نڈر اور بے غیرت ہو چکے کہ ہماری بلا سے کوئی سی سی ٹی وی کیمرہ ہماری نقل و حرکت کی ریکارڈنگ کر رہا ہو یا کوئی موبائل فون سے ہمارے کرتوتوں کی وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کردے ۔ہم میںکچھ شرم باقی نہیں رہی ۔
اللہ تو کسی کو بے پردہ نہیں کرتا ۔لیکن ہم کسی کو بھی معاف نہیں کرنا چاہتے ۔دنیا بھر میں غیر مسلم انسانیت کی فلاح کےلئے خود کو وقف کئے ہوئے ہیں جبکہ ہم انسانیت کے ماتھے پر کلنگ کا ٹیکہ بنے ہوئے ہیں ۔
ہم کافروں سے تو یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ مقدس ہستیوں اور مقدس اوراق کی بے حرمتی نہ کریں ،لیکن ہمارے اپنے اعمال اس کے برعکس ہیں ۔
مقدس ہستیوں کی تعظیم فرض او رمقدس اوراق کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے ،لیکن ہم غیر اقوام سے یہ توقع رکھتے ہیںکہ وہ مقدس اوراق کی بے حرمتی نہ کریں ،جب ایک کافر اردو یا عربی پڑھنا ہی نہیںجانتا ،جب وہ ہمارے مذہب سے ہی ناآشنا ہے تو ایسے میں اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ تعظیم کرے ،عبث ہے ۔
اسلام سمیت دنیا کا کوئی مذہب کسی کابھی خون بہانے کی اجازت نہیں دیتا ، کسی انسان کا قتل خود ربّ کائنات بھی معاف نہیں کر تا ،کیونکہ یہ مقتول اور قاتل کا معاملہ ہے ،جب تک مقتول اپنے قاتل کو معاف نہیں کرے گا اسے اس جرم کی معافی نہیں ملے گی ۔
ایران اور سعودی عرب میں مجرموں کو فوری طور پر لٹکانے کا نظام موجود ہے ۔وہاں لمبی لمبی تاریخیں نہیں دی جاتیں ،قاضی صاحبا ن کسی سفارش یا چمک سے بھی مرعوب نہیں ہوتے ، مجرم کا سرقلم کردیا جاتا ہے ،ہاتھ تک کاٹ دئیے جاتے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ وہاں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ،اس لئے وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ توہین مذہب ہو یابچوں ،عورتوں سے اجتماعی زیادتی یاقتل و غارت گری کے واقعات،ان میں ملوث مجرمان کو مختصر ٹرائل کے بعد پھانسی کی سزا دئیے جانے کو قانون کا حصہ بنائیں ۔
عدالتوں میں طویل عرصہ کیس چلنے اور شک کی بناءپر مجرموں کو بری کئے جانے کی پالیسی میں تبدیلی لانا ہوگی ۔جھوٹی ایف آئی آر پر مدعی کو بھی سزا دی جانا چاہئے اور مجرم کو کسی قسم کی معافی نہیں دینا چاہئے ۔
سانحہ ءسیالکوٹ میں سری لنکن منیجر ارتھنا کمارا کو تشدد سے ہلاک کرنا اور پھر لاش کی بے حرمتی کے بعد اسے زندہ جلانے والے مجرم سب کے سامنے ہیں ،کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں ۔
اس لئے وزیر اعظم عمران خان دیگر تمام کاموںکو پس پشت ڈال کر ان مجرموں کو نشان عبرت بنانے کے عمل کو جلد سے جلد عملی جامہ پہنائیں ۔
بیشک! وزیر اعظم عمران خان نے اپنے تین سالہ دور میں عوام کو کچھ ڈیلیور نہیں کیا ، لوگ ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ،لیکن سانحہ سیالکوٹ میں ملوث مجرمان کو بیچ چوہرائے میں لٹکا کر نشان عبرت بناکر وہ ایک ایسی تاریخ مرتب کرسکتے ہیں کہ جو اس ملک میں جاری قتل و غارت گری کی وباءکے خاتمے میں مددگار ثابت ہو گی ۔
جب لوگوں کو یہ پتہ چل جائے گا کہ جرم کے بعد سزا سے بچنا ممکن نہیں تو ملک میں امن بھی قائم ہوگا اور لوگ بھی سکھ چین سے رہ سکیں گے اور یہ وزیر اعظم عمران خان کا قوم پر ایک احسان ہوگا ۔