کالم و مضامین

مہنگائی کے طوفان میں آٹے کا بحران

تحریر:آغا سید حید رشاہ

Agha Syed Haider Shah Column

وطن عزیز میں اشیائے خورونوش کی گرانی نے ہر پاکستانی بالخصوص متوسط اور کم آمدن والے طبقات کی زندگی اجیرن بنا دی ہے،غریب افرادکیلئے اپنی قلیل آمدن میں دو وقت کی روٹی کا حصول بھی ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔

مہنگائی کے طوفان میں آٹے کے نرخ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے اور بحران کے باعث آٹا نایاب ہوگیا ہے عوام سستے آٹے کیلئے دربدر ہورہی ہے۔

دیگر اشیاءضروریہ کی قیمتیں بھی بے قابو ہوگئیں ، مرغی کا گوشت چھے سو روپے سے زائد ، انڈے ساڑھے تین سو روپے درجن اور چاول بھی تین سو روپے سے زائد میں فروخت ہو رہے ہیں جبکہ گھی اور آئل کی قلت کا بھی خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

آٹا 160 روپے میں فروخت ہورہا ہے جبکہ ملک کے مختلف علاقوں میں بھی سستے آٹے کے حصول کیلئے لمبی لمبی لائنوں میں عوام خوار ہو رہے ہیں۔ سندھ کے ضلع میرپور خاص میں سستا آٹا خریدنے کی کوشش کرنے والاآٹھ بچوں کا باپ ہلاک ہوگیا۔

نوابشاہ میں سستا آٹا خریدنے کی خواہش رکھنے والی بچی سمیت تین خواتین ہجوم میں دب کر زخمی ہوگئی جبکہ ٹنڈو باگو میں ایک ماہ بعد سرکاری ریٹ پر آٹا فروخت والا ٹرک پہنچا تاہم پولیس نے سستا آٹا خریدنے کی کوشش کرنے والے نوجوان کو زخمی کردیا۔ مارکیٹ میں گندم5200 روپے فی من پر پہنچ گئی ہے۔

جس کے باعث شہریوں کیلئے آٹا خریدنا آسان نہیں رہا۔ اسلام آباد اور پشاور میں 10 کلو آٹے کا تھیلا 1500 روپے فی کلو میں فروخت کیا جارہا ہے اور کوئٹہ میں بیس کلو آٹے کا تھیلا 2800 روپے میں فروخت کیا جارہا ہے۔

” مہنگائی مکاﺅ مارچ “کے ذریعے تحریک انصاف حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب بنا کر حکومت بنانے والی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم ) میں شامل سیاسی جماعتوں نے غریب عوام کو ”مہنگائی کی قبر “میں دفن کر دیا ہے۔

پاکستان کا معاشی بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ بدترین ہوتا جارہا ہے، اور اس کا براہِ راست اثر عوام پر پڑ رہا ہے۔ ایک جانب ہوش ربا مہنگائی ہے۔

تو دوسری جانب عوام کا ریاست پر سے اعتماد ختم ہوتا نظر آتا ہے اس بدترین معاشی و سماجی صورتِ حال میں ہر جانب ایک ہی سوال نظر آتا ہے کہ پاکستان کا مستقبل کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب شاید کسی کے پاس بھی نہیں ، اٹھارویں ترمیم کے تحت زیادہ تر اختیارات صوبوں کو منتقل ہوچکے ہیں۔

لہٰذا مہنگائی کے ایشو پر جہاں وفاق ذمے دار وہاں صوبے بھی اپنی ذمے داری سے انکار نہیں کرسکتے خصوصاً ڈیلی استعمال کی اشیاءکے نرخوںکو مستحکم رکھنا، تھوک مارکیٹس وغیرہ کو ریگولرائز کرنا اور وہاں نگرانی کرنا اور فول پروف میکنزم بنانا صوبائی حکومت کی ذمے داری بھی ہے۔

اور اس کے پاس اختیار بھی موجود ہیں۔سبزی اور پھل منڈیوں،سلاٹر ہاوسز، مویشی منڈیاں، کولڈ اسٹوریجز وغیرہ سب کا انتظام وانصرام صوبائی حکومتوں کا دائرہ اختیار ہے۔

صوبوں میں پرائس کنٹرول کمیٹیاں بھی موجود ہیں لیکن اس کے باجود ہر فطرف بدنظمی اور لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔اس کی تمام تر ذمے داری سرکاری عمال کی بدنیتی، کوتاہی ، رشوت خوری اور اختیارات کا ناجائز استعمال پر عائد ہوتی ہے۔

سبزی منڈیوں اور پھل منڈیوں میں چلے جائیں، وہاں صفائی کا انتظام موجود نہیں ہے۔ کوئی ڈسپلن موجود نہیں ہے۔ آڑھتیوںکی حکمرانی ہے جبکہ کسان کی حیثیت ایک گاہک سے زیادہ نہیں ہے۔

پاکستان میں مہنگائی کی ایک اور بڑی وجہ ’کارٹلائزیشن‘ ہے، جیسے سمینٹ، چینی اور دودھ بنانے اور ڈبو میں پیک کرنے والی کمپنیاں، ان کا اپنا اپنا کارٹل ہے اور یہی کارٹل اپنی پراڈکٹس کی ایجنسی اور ریٹیل پرائس طے کرتی ہیں۔

یہاں حکومت محض تماشائی ہے یا ان مینوفیکچرز اور کارخانہ داروں سے ٹیکس لیتی ہے، صارف کے مفادات کا کوئی تحفظ نہیں کیا جاتا۔کارٹلز انتہائی طاقتور ہوتے ہیں لہٰذایہ قوانین بھی اپنی مرضی کے بنوانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، اس طرح ان کی ناجائز منافع خوری کو بھی قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے جبکہ اینڈ یوزر بے بس اور مجبور ہوتا ہے۔

ریاست اس کے حقوق کیلئے کچھ نہیں کرتی۔ملک کی 90 فیصد سے زائد شوگر ملیں طاقت ور سیاسی خاندانوں کی ملکیت ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ سرکاری خزانے سے سبسڈی لیتے ہیں۔

جب چینی درآمد کرنا چاہییں کرلیتے ہیں اور جب برآمد کرنا چاہیے، برآمد کرلیتے ہیں چاہیے اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو۔اسی وجہ سے کبھی چینی کی قلت پیدا ہوجاتی ہے اور کبھی وافر ہوجاتی ہے۔ موجودہ مہنگائی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔

 منافع خور اور ذخیرہ اندوز اربوں روپے منافع کما رہے ہیں۔ دراصل قیمتوں کو کنٹرول کرنا ضلعی انتظامیہ کی بنیادی ذمے داری ہے مگر وہ صرف پریس ریلیز اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں کی لسٹ جاری کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے عوام کو ریلیف دے دیا ہے۔

پچھلے برس صدر مملکت نے پاکستان فوڈ سیکیورٹی فلو اینڈ انفارمیشن آرڈیننس جاری کیا تھا، جس کے تحت بلا جواز مہنگائی ذخیرہ اندوزی یا ان میں ملاوٹ کی صورت میں ملوث افراد کو چھ ماہ قید، جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جا سکیں گی۔ملک بھر میں سبزیاں اور پھل انتہائی مہنگے دام فروخت ہورہے ہیں۔

اس کی بنیادی وجہ بھی ہمارے نظام میں پایا جانے والا ایک کردار آڑھتی ہے ، جو منڈیوں میں ناجائز منافع خوری دھڑلے سے کرتے نظر آتے ہیں ، جنھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ہونا تو یہ چاہیے کہ کاشتکاروں سے گاو ¿ں کی سطح پر براہ راست خریداری کی جائے اور اس مقصد کیلئے میکنزم تیار کیا جائے۔

آڑھتیوں کیلئے بھی سرکاری ریٹ مقرر کیا جائے تاکہ کسان کو لوٹ مار سے بچایا جاسکے۔ آڑھتی کے خرید اور فروخت کا ریٹ مقرر کردیا جائے،اس طرح دکاندار بھی مقررہ ریٹ پر اجناس بیچ سکے گا اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس پر قانونی کارروائی بھی جائز سمجھی جائے گی۔

اس طرح معیشت کی ڈاکومنٹیشن بھی ہوجائے گی اور مارکیٹ میں استحکام آئے گا، صوبائی اور ضلعی حکومتوں کے ریونیو میں اضافہ ہوگا۔

اس کے ساتھ سرکار منڈیوں کو صاف ستھرا رکھنے اور وہاں خریداروں اور فروخت کنندگان کی سہولت کیلئے اقدامات اٹھانے کی پابند ہے۔

عوام اور کر بھی کیا سکتے ہیں جب ان کے اپنے منتخب کردہ نمائندے اپنے شہریوں کے روزمرہ مسائل خاص کر اشیاءخورونوش کی خود ساختہ گرانی کی وجہ سے مہنگائی کے نام پر لوٹ مار سے لاتعلقی کا شکار ہوں۔

کیپٹن شبیر شہید‘ شاہ کبیر کی جان

ضلعی حکومتیں اپنی ہی متعین کردہ اشیاءخورونوش کی قیمتوں کے سلسلے میں روزانہ نرخ نامہ جاری کرتی ہیں لیکن اس پر عملدرآمد کرانے میں عملاً بری طرح ناکام رہتی ہیں۔

Agha Syed Haider Shah Column About Inflationary Storm | ملک میں مہنگائی کی شرح بلند ترین سطح پر پہنچ گئی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button