انسان کو اللہ کریم نے اشرف المخلوقات کے درجہ پر فائض کیا یعنی تمام مخلوقات سے افضل و اعلیٰ بنایا ۔ اس افضل و اعلیٰ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انسان اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی خیال رکھتا ہے۔
اس کے دل میں دوسرے انسانوں کے لیئے ایثار و قربانی کے جذبات پائے جاتے ہیں حدیث شریف میں اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے ،کامل مسلمان وہ ہے جس کی زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں یعنی نہ وہ انہیں گالیاں دے، نہ ان پر لعنت بھیجے۔
نہ ان کی غیبت کرے اور نہ ہی ان کے مابین کسی قسم کا شر و فساد پیدا کرنے کی کوشش کرے اور اسی طرح وہ اس کے ہاتھ سے بھی محفوظ رہیںیعنی وہ ان پر کوئی ظلم نہ کرے، ناحق اُن سے ان کے مال نہ لے اور اس طرح کی کوئی بھی زیادتی ان کے ساتھ نہ کرے۔
شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر اقبال نے کیا خوب کہاہے!اپنے لیئے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں ۔ہے زندگی مقصد اوروں کے کام آنا۔ ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے آتے ہیں جو کام دوسروں کے۔یہی اسلام کی خوبصورتی ہے بلکہ اسلام نے تو ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ جو تم اپنے لیئے پسند کرو وہی دوسروں کے لیئے پسند کرو۔
محبت رواداری ، اخوت بھائی چارہ ہی اسلام کی اصل رو ہے ۔گذشتہ روز مجھے پاکستان میڈیا رائٹرز کلب کے پلیٹ فارم سے ایک دعوت موصول ہوئی کہ سبزہ ذار لاہور کے ایچ بلاک میں جُھگیوں میں بسنے والے لوگوں سے ملنے جانا ہے۔
اُن کی زندگی کے مسائل جاننے کی کوشش کرنی ہے لہذا وقت مقرر پر سینئر صحافی عقیل انجم اعوان کے ساتھ ایچ بلاک سبزہ ذار پہنچا جہاں کلب کا استقبال کرنے کے لیے غیث ویلفیئر اینڈ ایجوکیشن ٹرسٹ جُھگی ماڈل سکول جو اپنی طرز کا ایک الگ ہی پراجیکٹ ہے کے سینئر ممبران پہنچے۔
جھُگیوں میں پہنچ کر تما م دوست اس منفرد منصوبہ کو دیکھ کر حیران رہ گئے جہاں نہ زندگی گذارنے کی کوئی سہولت نہ بجلی نہ پنکھا جہاں سانس لینا مشکل گرمی کی شدت کے باوجود بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
غیث ویلفیئر ایجوکیشنل ٹرسٹ کے آفیشلز محترم صاحبان سیف اللہ، غیاث الدین، عثمان غنی اور لاہور سنٹر ٹرسٹ کے امور کو عثمان غنی جو کہ اس ٹرسٹ کے روح رواں ہیں۔
انہوں نے ٹرسٹ کی کارکردگی، فعل وافعال اور مستقبل کے لائحہ عمل پر میڈیا بریفنگ دی۔ ٹرسٹ پینے کے صاف پانی کے پروجیکٹ پر بھی ملک بھر میں کام کر رہا ہے۔
ٹرسٹ کے بانی مسعود رحمان صاحب کا پیغام بھی پڑھ کر سنایا۔ لاہور میں 24 ہزار جھگیوں میں رہائش پذیر خاندان جو نچلی سطح کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جو کچی آبادی سے بھی کم سطحی گردانہ جاتا ہے۔
انکے5 سال سے 12 سال کے بچوں کو مفت تعلیم دینے کا بیڑہ غیث ویلفیئر نے اٹھایا ہے۔ تاکہ یہ بچے پڑھ لکھ کر بہترین معاون ثابت ہوں اور معاشرے میں مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔
بدقسمتی سے خانہ بدوشوں کو ہمارے معاشرے میں اس اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا جب اس حوالے سے ان سے بات کی کہ آپ سفر کرتے ہیں تو لوگوں کا آپ کے بارے میں رویہ کیا ہوتا ہے؟ اور آپ لوگوں کے بارے میں کیا سوچھتے ہیں؟
تو ان کا سادہ جواب اپنے قارئین کی نذرکرتا ہوں ”کچھ لوگ ہمیں تنگ کرتے ہیں مگر کچھ اچھے لوگ بھی موجود ہیںہمارا رویہ ہر شخص سے اچھا ہوتا ہر شخص کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے کیوں کہ ہم جانتے ہیں۔
ہم غریب اور بے گھر لوگ ہیںہم کسی سے بحث کریں گے تو اپنا ہی نقصان کریں گے۔ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت کے بارے میںپوچھاتو ان کا کہنا تھا کہ ”بچوں کو کیا تعلیم دیں رہنے کے لیے کوئی جگہ ہو گی کوئی مستقل ٹھکانہ ہو گا۔
تو تعلیم دیں گے پیٹ بڑی مشکل سے بھرتا ہے تو تعلیم کیسے دیں گے؟ دن کوکام پر جاتے ہیں اور جوکماتے ہیں اس سے ضروریات زندگی کی اشیاءلاتے ہیں اور جب کچھ نہ ہو تو یہیں اپنی جھگیوں میں پڑ ے رہتے ہیں کوئی پرسان حال نہیںہوتاکوئی فریاد سننے والا نہیں ہوتا۔
مانا کہ ہم میںبھی کچھ کالی بھیڑیںہیں جو جعلی دھندہ کرتے ہیں دھوکہ دہی سے کام لیتے ہیں لیکن پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔انہوں نے اس بات کا بھی گلہ کیا کہ حکومت لوگوں کو بارہ ہزار روپے دے رہی ہے۔
لیکن ہم لوگ تو اس سہولت سے بھی محروم ہیں ۔جب ان سے ان کے بچوں کے خیالات کے بارے پوچھا کہ آپ کے بچے نہیں چاہتے ہم بھی دوسرے بچوں کی طرح زندگی بسر کریں کھیلیں اور تعلیم بھی حاصل کریں تو ان کا درد بھرا جواب سن کے ہر آنکھ اشکبار تھی۔
بچے بھی دیکھیں چھوٹے چھوٹے ہیں اسی طرح گھوم رہے ہیں اور ہمیں اکثر کہتے رہتے کہ بابا! ہمیں بھی سکول بھیجیں ،مدرسے بھیجیں ہم بھی آخر مسلمان ہیں نبی محتشمﷺ کلمہ پڑھنے والے ہیںہم کوئی ہندوتھوڑے ہیں اوہمسایہ ملک بھارت سے نہیں آئے ہیں۔
یہیں کہ باشندے ہیں مگر ہمارے پاس وسائل نہیںہیں اپنی گذر بسر کرنے کے لیے تین چار سو کماتے ہیں جو اپنی ذات پر خرچ ہو جاتے ہیں۔
جب ان سے ان کی رہائش اور اس کے مسائل کے بارے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ہماری زندگی بہت مشکل سے گذر رہی ہے لوگ بارش سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں بارش ایک پریشان کُن معاملہ ہوتا ہے ہمارے گھروں کی چھتیں ہوا میں اُڑ جاتی ہیں، گھروں میں ایک دو فٹ پانی جمع ہو جاتا ہے۔
جس سے جینا محال ہو جاتا ہے کھانا پکانے کے لیے مشکلا ت کا سامنہ رہتا ہے چولہے جلانا بھی مشکل ہو جاتا ہے ۔ ابھی اپریل کا مہینہ ہے گرمی کا ابھی ذور نہیں لیکن اس اگلو(جُھگی )کے اندر سانس لینا تک مشکل ہو رہا تھا ۔
حبس ،گرمی اور پانی کی قلت جیسے مسائل ان جھگی والوں کے لیئے روزانہ کا مسائل ہیں ۔جب اُن سے پوچھا کہ ایک جگہ پر کتنا عرصہ رہتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ ایک دو ماہ یا پچیس دن اس کے بعد جہاں قسمت لے جائے وہیں اپنا مسکن بنا لیتے ہیں ۔
جب ان کی خواتین کی زندگی کے بارے پوچھا تو انہوں نے بتا یاکہ ہماری خواتین محنتی ہیں اور گھروں میں کام کاج کرتی ہیں جس سے گھر کا نظام چل رہا ہوتا ہے۔
بھیگی پلکوں سے بہتے آنسوﺅں کی رم جھم جھڑی نے ہر انسان کو اشکبار کر دیا وہ مجھے اپنی رہائش گاہ میں لے گئے اور کہاہم غریب خانہ بدوش ہیں ہماری رہائش گاہ دیکھیں ٹینٹ پھٹا ہوا ہے اور یہ برتن دیکھیں کیسے بکھرے پڑے ہیں۔
یہاں جانور نہیں ہم انسان رہتے ہیں اس سے اچھی جگہ تو امیر لوگوں کے جانورو ں کی ہوتی ہے جہاں ہم رہتے ہیں سونے کے لیے کوئی خاص بستر نہیں ہے۔
بارش لگی تو کدھر جائیں گے؟لوگوں کے گھروں میں دروازے ہیں ہمارے دروازے تک نہیں ہیں لوگ دستک دےکر آتے لیکن یہاں دستک کی جگہ بھی نہیں ہماری عورتیں ان پھٹے پرانے ٹینٹ میں بے پردہ بیٹھی ہوتی ہیں تو نامحرم کی نگاہ ان پر پڑ تی ہے۔
ایسے مسائل کے حل کےلئے غیث ویلفیئر ایجوکیشنل ٹرسٹ کام کر رہا ہے جو اپنی نوعیت کا منفرد کام کر رہا ہے لاہور کراچی سمیت پورے پاکستان میں اس ٹرسٹ کی شاخیں کام کر ری ہیں جو ان جھگیوں والوں کے بچوں کو تعلیم کے نور سے مزین کر رہے ہیں یقننا یہ ایک بہت اچھا اور عملی کام ہے ۔
ایسے بچے بڑے ہو کر معاشرے کا ایک بہترین فرد بن کر قوم و ملت کے لیے کام کر سکیں گے۔ مخیر حضرات سے درخواست ہے کہ ایسے ٹرسٹ کی مالی امداد کی جائے ۔
حکومت وقت سے گذارش ہے کہ ایسے لوگوں کی مدد کریں کوئی سپیشل سیل قائم کریں جہاں ایسے لوگوں کو کام دیں تا کہ یہ لو گ بھی عزت کے ساتھ اپنی زندگی بسر کر سکیں ۔
”رمضان المبارک فضائل،اعمال اور اسکے تقاضے“
ایک بہت ضروری اور اہم نکتہ جس پر بحیثت لکھاری میں توجہ دلانہ چاہتا ہوں وہ یہ کہ یہاں بسنے والوں کے پاس کوئی شناختی کارڈ نہیں ، اِن کی کوئی شناخت اور پہچان نہیں ۔
انہیں لوگوں کو نشہ بیچنے اور ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لیئے استعمال کیا جا سکتا ہے لہذا ایسے لوگوں کا فوراََ اندراج ہونا چاہیے اور اس مسلئے کو حکومت وقت ہنگامی بنیادوں پر حل کرے ۔