کالم و مضامین

دنیا میں بڑھتی نسل پرستی کا خاتمہ صرف اسلامی تعلیمات سے ہی ممکن ہے!!!

مفتی غلام یسین نظامی

عالمی دنیا بے شمار سیاسی،سماجی،مذہبی و اقتصادی مسائل کی طرح نسل پرستی اور نسلی تعصب کا شکار ہے ۔مغربی ممالک میں اکثر سفید لوگوں کی بالادستی اور سیاہ فام لوگوں سے امتیازی سلوک کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔اور نسل پرستی کا عنصر صرف مغرب میں ہی نہیں ہے بلکہ دنیا کے دیگر خطے بھی اس کی لپیٹ میں ہیں۔

عربی و فارسی کی تقسیم، چینی و جاپانی کی تقسیم اور اسی طرح بھارت میں بدترین ذات پات کا نظام ہزار ہا سال سے رائج ہے جس کی چکی میں پسنے والی اقوام میں سے ایک قوم دلت بھی ہے جو اس ظالمانہ نظام کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

بدقسمتی سے برصغیر میں اسی ذات پات کا تسلسل ہمیں مملکتِ خداداد پاکستان میں بھی نظر آتا ہے جہاں مختلف اقوام اور برادریوں کے مابین تقسیم بعض اوقات امتیاز کا باعث بنتی ہے۔

یہ امر باعث افسوس ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک میں ”Anti-Discrimination Laws“بھی موجود ہیں لیکن اس کے باجود نسلی امتیاز و انتہائپسندی کا خاتمہ نہیں کیا جا سکا۔عالمِ انسانیت صدیوں سے نسلی تفاخر جیسے سماجی مرض سے چھٹکارا نہیں پا سکا ہے جس کی ایک بڑی وجہ قوم کی جمعیت کا انحصار ملک و نسب پر ہونا اور رنگ،نسل،زبان،مذہب یا علاقہ کے لحاظ سے انسانیت کا امتیاز ہے۔جب تک اس نسلی تفاخر کا خاتمہ نہیں ہوتا، اس وقت تک رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا خاتمہ بھی ممکن نہیں۔

او آئی سی رکن ممالک کے درمیان اتحاد کو فروغ دینے کی ضرورت ہے

رنگ و نسل کے امتیاز اور تفاخر کا بہترین تریاق اسلامی تعلیمات ہیں جن کا عملی نفاذ اس مادہ پرستانہ دور میں ناگزیر ہو چکا ہے ۔

اسلام نے سب سے پہلے نسل پرستی کا قلع قمع کرتے ہوئے وحدت ِ نوعِ انسانی اور احترامِ آدمیت کا درس دیا اور انسانی فضیلت کا معیار،رنگ،نسل قبیلہ یا مذہب کی بجائے تقویٰ پر ٹھہرایا جیساکہ ارشادِ ربانی ہے:۔

اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔بے شک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے۔

(الحجرات:13)
اور حضور سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عملی زندگی میں نسل پرستی کے خاتمے اور انسانی مساوات کی جو مثالیں قائم فرمائیں وہ انسانی تاریخ کا سب سے عظیم باب ہے جس میں سب سے بڑی مثال آپ نے اپنے حبشی غلام حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور قریش کے سرداران کو ایک ہی دسترخوان پر بٹھا کر دنیا کو ہمیشہ کیلئے سبق دیا کہ اسلام نے نسلی امتیاز و نسلی تفاخر کی عملی نفی کی ہے ۔

اسی طرح خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان تمام عالم انسانیت کیلئے مشعلِ راہ اور نسل پرستی و نسلی تعصب کے خاتمے کیلئے عالمی منشور کی حیثیت رکھتا ہے:

لوگو! تمہارا رب بھی ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے، خبردار! کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر،کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے، مگر تقویٰ کے ساتھ۔(مسند امام احمد بن حنبل)

ایک غلام حضرت زید بن حارثہ کی مثال اسلامی تاریخ کا سنہری واقعہ ہے۔جب زید بن حارثہ کا والد اپنے بیٹے کو واپس لینے کے لئے آیا تو آپ نے اسے اپنے باپ کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔

زید بن حارثہ نے اپنے باپ کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اللہ کے رسول نے اسکے ساتھ باپ سے زیادہ شفقت اور محبت کی ہے۔ اللہ کے رسول نے زید بن حارثہ کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا۔جب آپ نے زید کی شادی اپنی پھوپھی زاد بہن سیدہ زینب سے کرنے کا ارادہ کیا تو ان کے بھائی نے اعتراض کیا کہ زید تو غلام ہے اس کی شادی قریش کے معزز خاندان کی خاتون سے کیسے ہو سکتی ہے۔

آپ نے فرمایا: اسلام میں قبیلے خاندان حسب نسب یا کسی اور بنیاد پر کسی قسم کا کوئی تعصب اور امتیاز نہیں ہے۔اوراللہ کے رسول نے زید کے بیٹے اسامہ کا نکاح بھی قریش کی اعلیٰ نسب خاتون سیدہ فاطمہ بنت قیس سے کیا اور ان کو ایک لشکر کا سالار بھی مقرر فرمایا بعض صحابہ کرام نے کہاکہ ایک غلام کو اس لشکر کا امیر بنا دیا گیا ہے جس میں جید صحابہ بھی شامل ہیں۔ آپ نے فرمایا: اسلام میں کسی قسم کا تعصب اور عصبیت نہیں ہے۔

ایک دیہاتی بدوی زاہر بن حرام اللہ کے رسول سے بہت محبت کرتا تھا وہ دیہات سے چیزیں لا کر شہر میں فروخت کیا کرتا تھا اور آپ کے لئے کوئی نہ کوئی تحفہ لے کر آتا ایک روز آپ نے اسے بازار میں دیکھا تو اس کی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ دیا اور فرمایا : کوئی ہے جو اس غلام کو خریدے۔

زاہر کہنے لگا :مجھ جیسے کالے کلوٹے کو کون خریدے گا جس کی کوئی قدر و قیمت ہی نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا :پیارے ایسا نہ کہو تم اللہ کے ہاں بیکار نہیں ہو تم اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتے ہو اس لیے تم اللہ کے ہاں بڑے قیمتی ہو۔(ابن حبان)

اسی طرح جب عیسائیوں کا ایک وفد مدینہ آیا تو آپ نے ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور انہیں اپنے عقیدے کے مطابق مسجد نبوی میں عبادت کرنے کی اجازت دی۔اورفتح مکہ کے بعد آپ کے چچا حضرت عباس اور داماد حضرت علی نے عرض کی: کہ خانہ کعبہ کی کلید برداری کا اعزاز ان کو دیا جائے۔

اللہ کے رسول نے خونی رشتے مذہب قبیلہ برادری اور ہر قسم کے تعصب کو مسترد کرتے ہوئے خانہ کعبہ کی چابی عثمان بن طلحہ کے سپرد کی جنھوں نے ابھی اسلام بھی قبول نہیں کیا تھا۔

اس طرح آپ نے نسل پرستی تعصب اور عصبیت کا خاتمہ کر دیا۔اللہ کے رسول نے اپنے آخری خطبہ حج میں فرمایا: کسی عربی کو عجمی پر کسی عجمی کو عربی پر کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں ہے سوائے تقوی کے۔ اللہ کے نزدیک معزز وہ ہے جو متقی ہے۔

ایک دفعہ انصار اور مہاجر آپس میں الجھ پڑے اور انصار اور مہاجر کہہ کر اپنے اپنے لوگوں کو بلانے لگے اللہ کے رسول نے اس رویے کو ناپسندفرماتے ہوئے فرمایا: وہ ہم میں سے نہیں جس نے دوسروں کو کسی عصبیت کی طرف دعوت دی وہ ہم سے نہیں جس نے دوسروں کے ساتھ عصبیت کی بنا پر لڑائی کی اور وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت پر مارا گیا۔اورایک اور روایت کے مطابق اللہ کے رسول نے فرمایا: اللہ تمہاری صورتیں اور تمہارے مال نہیں دیکھتا وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کی طرف دیکھتا ہے۔

ان تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں نسل پرستی کی کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ اسلام وحدت کا درس دیتے ہوئے تمام انسانیت کو اخوت و صلح اور پر امن نظریے کی دعوت دیتا ہے اوراسلام آج بھی دنیا کا واحد دین ہے جس پر ہم عمل کرکے ہر قسم کی نسل پرستی تعصب عصبیت اور نفرت ختم کر سکتے ہیں

youtube.com/watch?v=T99qX8_Xm9w

فی الحقیقت اسلام اللہ رب العزت کا عالمگیر و آفاقی پیغام ِ ہدایت ہے اس لئے دنیا کا ہر شخص (بلا امتیاز رنگ و نسل) اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر راہ ہدایت اختیار کرسکتا ہے اور نسلی تعصب سے پاک معاشرے کا قیام عمل میں لایا جاسکتا ہے۔

دوسرے لفظوں میں انسانیت کی اصل شناخت اور تکریم مادی جسم، رنگ و نسل کی بجائے اس کے تقویٰ، اخلاق اور روحانی مراتب کی بنیاد پہ کرنی ہو گی اس میں انسانیت کی بقاءاور عالمی امن کا راز ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button