ہیلتھ کارڈ کا اجرا ءاحسن مگر؟
ضمیر آفاقی عوام کی آواز
وزیر اعظم پاکستان نے ملک کے غریب ترین ایک کروڑ ایسے خاندانوں کو جو غریب ترین افراد کا مجموعہ ہیں کو صحت کی بہتر سہولیات کی فراہمی ممکن بنانے کے لیے ہیلتھ کارڈ کا اجراءکیا ہے، بادی النظر میں دیکھا جائے تو اسے ایک اچھا اقدام قرار دیا جانا چاہیے مگر کیا کیا جائے پاکستان کی سر زمین پر عام آدمی خصوصاً غریب ترین افراد کا اس ملک کے وسائل پر کوئی حق نظر نہیں آتا انصاف کا حصول ، تعلیم و صحت ہو ذلت سے بھر پور زندگی گزارتے یہ لوگ کسی سے شکوہ بھی نہیں کر سکتے اب توحاکمان وقت نے ریاستی مشینری کی طاقت اس قدر حاصل کر لی ہے کہ احتجاج بھی ممکن نہیں رہا ۔
وزیر اعظم ہیلتھ کارڑدکے زریعے مالی مدد سے غریب سکھ کا سانس تو لیں گے، مگر اس سے پاکستان کے نظامِ صحت میں موجود بڑے مسائل مثلاً ڈاکٹروں کی کمی اور غیر معیاری سہولیات (یا عدم دستیابی) حل نہیں ہو پائیں گے۔
پاکستان میں نظامِ صحت کا بنیادی ڈھانچہ انتہائی کمزور ہے، اکثر سرکاری ہسپتالوں میں اسٹاف کی کمی ہے، جبکہ وہاں موجود اسٹاف مریض کی نگہداشت، صفائی ستھرائی اور سامان کی دستیابی وغیرہ کا خیال نہیں رکھتا ۔
ڈاکٹروں کی کمی اور مریضوں کی دیکھ بھال میں لاپرواہی کی وجہ سے غریبوں کو اکثر علاج میسر نہیں ہوپاتا، جس کے سنگین نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ کسی بھی مرض کا بہتر علاج اس وقت ہی ممکن ہے جب مریض کی بروقت اور درست دیکھ بھال کی جائے۔
Health Card Pakistan Urdu Article
سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کی بڑی تعداد کے مقابلے میں اسٹاف انتہائی کم ہے۔ پاکستان اس وقت زچگی کے دوران ماں اور بچے کی موت کے حوالے سے سرفہرست ہے، جبکہ پھیلنے والی بیماریوں کے مریض بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ یہ سب صحت کی ناکافی سہولیات کے باعث ہے۔
صحت کی سہولیات بنیادی انسانی حقوق میں سے ہی ایک بنیادی حق ہے جس کی ہر شہری کو مفت فراہمی کسی بھی ریاست کا بنیادی فریضہ ہوتی ہے، لیکن پاکستانی ریاست جہاں اپنے شہریوں کا ایک بھی بنیادی مسئلہ حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے وہاں صحت کی سہولتوں کی مخدوش حالت نے 80 فیصد پاکستانی عوام کو غیر سائنسی علاج پر مجبور کر رکھا ہے مختلف رپورٹ اور اندازوں کے مطابق( جن میں گزشتہ کئی سالوں سے کوئی تبدیلی نہیں آئی) تقریباً 80 سے 85 فیصد پاکستانی مختلف نوعیت کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔
غیر سرکاری اداروں کے سروے کے مطابق اٹھارہ سو انسانوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کیلئے صرف ایک ڈاکٹر موجود ہے جس کی اہلیت کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل ہے۔
جبکہ ایک سرکاری ویب سائٹ کے کوئی دو سال پہلے کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان بھر میں 916 ہسپتال ہیں جن میں شہری علاقوں کے ہسپتال ایک سو سے پانچ سو بستروں پر مشتمل ہیں، دیہی علاقوں کی صورتحال کا اندازہ لگانا مشکل ہے، 4600 ڈسپنسریاں، 5301 بنیادی مراکز صحت، 552 دیہی مراکز صحت ہیں جبکہ ٹی بی مراکز کی تعداد 289 ہے۔ تمام پاکستانی ہسپتالوں میں مریضوں کے علاج معالجے کیلئے بستروں کی تعداد 99908 ہے۔
اسی ویب سائیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق حکومت کی جانب سے عوام کو صحت کی سہولتیں مہیا کرنے کیلئے متعین کردہ ڈاکٹروں کی تعداد 113206 ہے۔
ماہر امراض دندان 6127، نرسیں 48446، دیگر ملازمین صحت 23559 اور لیڈی ہیلتھ ورکرز 6741 ہیں۔ درج بالا اعداد و شمار یہ واضح کرتے ہیں کہ 20 کروڑ سے زائد آبادی کو حکومت کی جانب سے دستیاب صحت کی سہولیات کی صورتحال کس قدر گھمبیر ہے۔
حکومت کی جانب سے صحت کی سہولیات کی فراہمی کیلئے انفراسٹرکچر کی تعمیر میں کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی جس کی وجہ سے صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کا عمل ایک منافع بخش صنعت کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔
سرکاری ہسپتالوں کے اردگرد نجی ہسپتال قائم ہیں جن کے معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل سے رجسٹرڈ نجی ہسپتالوں کا تناسب کل ہسپتالوں کا تقریباًپانچ فیصد سے بھی کم ہے۔
اسکے ساتھ ساتھ حکیموں، عطائیوں، پیروں، عاملوں جو تعویز گھنڈے سے علاج کے نام پر لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ دیہی علاقوں میں تو ان عناصر کا غلبہ ہے اور وہاں اکثر ہسپتال ڈاکٹر اور دوا سے محروم آثار قدیمہ کے مناظر پیش کر رہے ہیں۔کبھی بنیادی ہیلتھ یونٹ ہوا کرتے تھے اب ان کی کیا حالت ہے اگر کسی کو خبر ہو تو وہ ا طلاع دے سکتا ہے وہ کس حال میں ہیں ۔
منافع کی ہوس ادویات کی قیمتوں میں اضافے اورنجی ہسپتالوں کی مسلسل تعمیر کا باعث ہونے کے ساتھ ساتھ گزشتہ پانچ سال سے میڈیکل کالجوں کی بیش بہاتعمیرات اور قیام کا باعث بن رہی ہے، جہاں صحت کی سہولتوں سے جڑا ہر شعبہ ایک منافع بخش صنعت کا درجہ اختیار کرتا جا رہا ہے وہاں اب میڈیکل کالجوں کا قیام سیاسی مقاصد کیلئے بھی استعمال کیا جانے لگا ہے۔
حال ہی میں شائع ہونیوالی رپورٹ کے مطابق 2007ء سے قبل کے ساٹھ سالوں میں پاکستان بھر میں بیس میڈیکل کالجز کام کر رہے تھے جبکہ گزشتہ پانچ سالوں میں اس تعداد میں 108 کالجز کے اضافے کے بعد اب یہ تعداد 128 ہو چکی ہے جن میں سے 89 سرکاری میڈیکل کالجز، 51نجی، 10سرکاری ڈینٹل کالجز اور 29 نجی ڈینٹل کالجز شامل ہیں۔
صوبوں میں کالجز کی تقسیم کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی ) کی ویب سائیٹ پر جاری کردہ اعداد و شمار (یہ بھی کوئی دو سال پہلے کے ہیں)کے مطابق پنجاب میں اٹھارہ سرکاری، اٹھائیس نجی میڈیکل کالجز ہیں، سندھ میں نو سرکاری جبکہ بارہ نجی، پختونخواہ میں آٹھ سرکاری اور انیس نجی، بلوچستان بھر میں ایک سرکاری اور ایک نجی کالج موجود ہے جبکہ آزادکشمیر میں دو سرکاری اور ایک نجی میڈیکل کالج موجود ہے، اسی طرح پنجاب میں تین سرکاری اور بارہ نجی ڈینٹل کالجز موجود ہیں، سندھ میں چار سرکاری اور بارہ نجی، خیبر پختونخواہ میں دو سرکاری اور پانچ نجی، بلوچستان میں ایک سرکاری ڈینٹل کالج موجود ہے، آزادکشمیر میں کوئی ڈینٹل کالج موجود نہیں۔
واضح رہے کہ یہ ان تمام کالجز کے اعداد و شمار ہیں جو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل سے رجسٹرڈ ہیں اور ایسے بے شمار سرکاری اور نجی میڈیکل کالجز پاکستان بھر میں موجود ہیں جو ابھی تک پی ایم ڈی سی سے رجسٹرڈ نہیں ہو سکے ۔
ایک میڈیکل کالج کو پی ایم ڈی سی میں رجسٹرڈ کرنے کیلئے مخصوص احاطے میں پھیلی عمارت کے علاوہ ایک ٹیچنگ ہسپتال جس میں تمام بڑے شعبہ جات، ایمرجنسی کا شعبہ، تصریح کردہ لیبارٹریز سمیت دیگر لوازمات مکمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔
پچاس طلبہ کے کالج کیلئے اڑھائی سو جبکہ ایک سو طلبہ کے کالج کیلئے پانچ سو بستروں پر مشتمل ہسپتال ضروری ہے اور اسکے علاوہ اس ہسپتال میں پچاس فیصد مریضوں کا مفت علاج کیا جانا بھی ضروری قرار دیا گیا ہے۔
جس شرط کو ایک یا دو فری میڈیکل کیمپ لگانے تک نرم کرنے کے علاوہ باقی لوازمات کے پورا کرنے کی شرائط کو بھی نرم کیا گیا اور لاتعداد کالجز کو رجسٹرڈ کیا گیا ہے۔ منافع خوروں کیلئے کروڑوں روپے منافع کمانے کا سامان انسانی زندگیوں سے کھیل کر اور طالب علموں کا مستقبل تاریک کرنے سے منسلک ہو چکا ہے ۔
ہیلتھ کارڈ دینے سے پاکستان میں موجود ڈاکٹروں کی کمی، سہولیات سے عاری ہسپتال یا ہسپتالوں کی غیر معیاری صورتحال جیسے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔
نظامِ صحت کی حالتِ زار کو کارڈ سے نہیں بلکہ ہسپتالوں میں بہتر سہولیات کی فراہمی، نئے ہسپتالوں کی تعمیر، تربیت یافتہ ڈاکٹروں کی موجودگی اور بروقت علاج سے ممکن بنایا جا سکتا ہے جس کے لئے صحت کے بجٹ میںاضافہ ناگزیر ہے۔
جبکہ ایک ڈاکٹر بننے کے لئے جتنی فیس لی جارہی ہے اس میں صرف امرا کی بچیاں جن کو شادی یا سٹیٹس کے لئے ایم بی بی ایس کی ڈگری درکار ہوتی ہے ہی ڈاکٹری کر سکتے ،ہیں المیہ یہ ہے کہ حکومت اس ضمن میں بلکل سوچنے اور آسانی پیدا کرنے کے لئے تیار نہیں کہ عام اور غربا کے قابل بچے بھی ڈاکٹر بن سکیں ،ہر سال کوئی ایک لاکھ کے قریب انٹری ٹیسٹ دیتے ہیں مگر ان کے لئے کسی سرکاری کالج میں سیٹیں ہی نہیں ہیں ۔