مرغی کٹے پال تے نچ ”انصافیاں “ نال
شہیدوں اور غازیوں کی سرزمین پوٹھوہار سے چوبرگے کے منفرد و ممتاز شاعر نثار مرتضوی نے فرمایاتھا کہ :۔
لا الہ کا اعلان کر کے
تُو باطل کا منہ ہی کالا کر دے
چل اللہ رسول کے راستے پر
دہر میں اسمِ محمد سے اُجالا کر دے
لاالہ الا اللہ ایک نعرہ ہی نہیں نظریہ ہے‘ سبق ہے‘ دستور ہے اور صدفی صد نور ہے نہ صرف اہل پاکستان کیلئے بلکہ اہلِ اسلام کیلئے۔ بلا شبہ اسی بنیاد پہ ہی یہ ملک معرضِ وجود میں آیا ‘ قیامِ پاکستان کیلئے تحریکِ پاکستان میں شامل ہونے والے ہم سب کے بزرگوں کا یہ ایک نعرہ تھا کہ ۔
پاکستان کا مطلب کیا‘ لا الہ الا اللہ
کپتان اپنی ہر تقریر میں بفضل اللہ اس نعرے کو ضرور دہراتے ہیں لیکن شاید یہ بھول بیٹھے ہیں کہ انھوں نے کبھی ایک کروڑ نوکریوں کا نعرہ بھی دیا تھا۔ 2018 ءکے الیکشن میں کپتان نے پچاس لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کر کے ووٹ لیے لیکن ریاستِ مدینہ کی مثالیں دینے والے عمران خان اپنے تین سالہ نئے پاکستان میں وعدہ نبھانے کی بجائے بدل ہی گئے۔
ان کے ترجمان ِ خاص اور افلاطونِ وقت فواد چوہدری جی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ عمران خان نے ایک کروڑ سرکاری نہیں پرائیویٹ نوکریوں کا وعدہ کیا تھا۔ خیر نوکری نوکری ہوتی ہے چاہے سرکاری ہو یا غیر سرکاری‘ نوکری نوکری ہوتی ہے چاہے ایک ہو یا ایک کروڑ۔
خبر چھپی ہے بلکہ بہت ہی بڑی خوشخبری ہے کہ عمران خان پنجاب میں ایک ایسا کام کر گزرے ہیں جو دنیا بھر کے ممالک و اقوام کی تاریخ میں کسی بھی PM نے نہیں کیا ہو گا۔ سابق وزیرِ اعظم نے یہ بہت ہی بڑا کام بلکہ کارنامہ خالصتاًملک و قوم اور بالخصوص غریب عوام کی ترقی و خوشحالی کی خاطر سرانجام دیا ہے لہٰذا‘ لڈیاں پاﺅ‘ موجاں ہی موجاں۔
پورے پنجاب میں خوشی کی لہر دوڑ گئی بلکہ بعض علاقوں میں تو یہ خوشی کی لہر ناچی جھومی بھی ہو گی۔ ”مُرغی کٹے پال تے نچ انصافیاں نال “ اندرمن مندر کی بات بتلاﺅں کہ آج تو میرا بھی عمران خان دے جلسے اِچ نچن نوں جی کردا۔
خبر چھپی ہے کہ پنجاب حکومت نے سابق PM عمران خان کا ”دیسی مرغی پال پروگرام“ دوبارہ باقاعدہ طور پر بحال کر دیا ہے‘ 30 ستمبر تک کثیر تعداد میں مرغی کے یونٹ تقسیم ہوں گے۔ تیاریاں تیز کر دی گئی ہیں پچیس ہزار یونٹ تقسیم ہوں گے‘ ایک یونٹ میں ایک مرغا پانچ مرغیاں ہوں گی۔
ظالم شوباز نے یہ خالص عوامی فائدے کی سکیم کسی شیخ چلی کی سکیم سمجھ کر ختم ہی کر ڈالی تھی لیکن اب پنجاب میں عمرانی حکم کے تحت اللہ کے فضل و کرم سے باقاعدہ طور پہ شروع کر دی گئی ہے۔ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ایک یونٹ کی قیمت سبسڈائز ریٹ میں 1180 روپے کر دی گئی ہے۔ ڈائریکٹر پولٹری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ڈاکٹر سید کمال ناصر نے بتایا کہ یہ ایک بہترین پراجیکٹ ہے جس کو ہم” بقلم خود“ چلا رہے ہیں۔
شکر ہے یہ نہیں فرمایا کہ کپتان یا CM پنجاب خود نگرانی کر رہے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے مرغیاں بانٹ رہے ہیں۔ ڈاکٹر کمال نے کمال کی بات کی کہ ہر مرغی کا وزن 900 گرام ہو تا ہے یہ اچھی نسل کی دیسی مرغیاں ہیں۔ جی جی واقعی یہی پھول کھلیں گے تو خوشبو ہو گی‘ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔
میں نے بے شمار لوگوں سے ایسے عمرانی پروگرامز کے بارے میں پوچھا تو سب نے یہی کہا کہ کسی نے کوئی مرغی یا انڈہ دیا نہ ہم نے لیا بس ہم تو مہنگائی کے سونامی میں بہہ گئے ہیں لگتا ہے بلین ٹری کی طرح یہ بھی کوئی کاغذی منصوبہ ہی ہو گا۔
صد افسوس و ماتم کہ میرے پاکستان میں آج تک کسی بھی منصوبے‘ کسی بھی بجٹ یا کسی بھی حکومت کی پالیسیوں سے عام پاکستانیوں کی زندگی آسان نہیں ہوئی‘ یہ حکمران آج تک عوام کو پینے کا صاف پانی تک نہیں دے سکے لیکن وعدے اور دعوے بڑے ہی بلند کرتے ہیں۔
ساڑھے تین سال عمران خان کے نئے پاکستان میں غریب غربت و مہنگائی کی چکی میں پستا رہا لیکن پھر بھی آس لگائے اور اُمید باندھے کپتان کی جانب ہی تکتا رہا اور پھر آگے پرانے بیوپاری جو تقریباً 30 سال باریاں لگا لگا کر ملک و قوم کو کنگال کر کے گئے تھے‘ وہ دوبارہ مسلط کر دیئے گئے کہ یہ تجربہ کار ہیں اور مزید خدمت کریں گے ان ظالموں نے رہی سہی کسر بھی نکال ڈالی ملک و قوم کو تباہی کی دلدل میں پھنسا دیا۔
ہم بھی کیا عجیب ہیں کڑی دھوپ کے تلے
صحرا خرید لائے ہیں برسات بیچ کر
ان جھوٹے و جعلسازوں ‘ امریکی غلاموں ‘ ان تجربہ کاروں‘ مودی کے یاروں اور عالمی سامراج کے وفاداروں نے معیشت تباہ کر دی‘ ملک کا بیڑہ ہی غرق کر دیا‘ کمر توڑ مہنگائی سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو گئی اور آج غریب عوام دو وقت کی روٹی کو ترستے ہیں۔
بھوک پھرتی ہے میرے دیس میں ننگے پاﺅں
رزق ظالم کی تجوری میں چھپا بیٹھا ہے
غریب و بے کس مزدور کے خون سے وقت کے فرعونوں کی فیکٹریاں تو خوب چلتی ہےں لیکن بے سہارا‘ بے روزگار‘ بھوکے اور مجبور کا چولہا نہیں جلتا۔ عمران خان فرماتے ہیں کہ ” پاکستان آج یزیدیت کے نرغے میں ہے“۔ بصد ادب عرض ہے کہ اہلِ پاکستان حسینؓ کے نام لیوا تو ضرور ہیں لیکن کبوتر کی مانند آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں حسن نثار کے الفاظ میں:۔
میرا حسینؓ ابھی کربلا نہیں پہنچا
میں حُر ہوں ابھی لشکر ِیذید میں ہوں
ان حالات میں سب سے بہتر بات صدر ِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کی ہے کہ ملک و قوم کی خاطر نفرتوں میں کمی کیلئے عمران خان اور شہباز شریف سے بات کرنے کو تیار ہوں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت و اپوزیشن الغرض سب پاکستانی خاص و عام تمام آپس کی لڑائیوں اور انتشار کی سیاست ترک کر کے خدارا ملک و قوم کا سوچیں۔
اپنے ہی ایک شعر کی صورت میں حاکمِ وقت سے کہتا ہوں کہ:۔
بے کسوں کے سنگ ہو جا دو چند سے دور کنارا کر
بن تُو آس یتیموں کی بے چاروں کا چارہ کر