"سقوط ڈھاکہ”
پاکستانی تاریخ میں 1997ء کے بعد 16 دسمبر ہر سال سقوط ڈھاکہ سیاہ دن کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن ہمارے ازلی دشمن بھارت نے پاکستان کے مشرقی بازو کو ایک مذموم سازش کے ذریعے وہاں کے متحارب گروپ "مکتی باہنی” کے ساتھ ملکر جدا کر دیا تھا ۔
اس وقت پاکستان کے آرمی چیف اور صدر جنرل یحیٰی خان تھے۔ ہوا کچھ یوں کہ سال 1971 کے شروع ہوتے ہی مشرقی پاکستان میں "مکتی باہنی” نے آزادی کی تحریک شروع کر کے لوگوں کی قتل و غارت گری کا بازار گرم کردیاتھا۔26 مارچ 1997ء کو پاک فوج نے بنگالی حریت پسندوں کے خلاف جو کہ مشرقی پاکستان میں تخریبی کاروائیوں میں ملوث تھے ایک عسکری آپریشن ” سرچ لائٹ” کے نام سے شروع کیا ۔
نتیجتاً وہاں کے مقامی ہندوستان کی تربیت یافتہ نوجوانوں پر مشتمل تنظیم جسے "مکتی باہنی” کہا جاتا تھا نے اپنی تحریک میں مزید شدت اختیار کرتے ہوئے افواج اور وفاق پاکستان کے وفادار عناصر کا قتل عام شروع کر دیا۔
مکتی باہنی کو بھارت بھرپور انداز میں مالی اور سفارتی امداد فراہم کر رہا تھا۔ جب یہ خانہ جنگی شدت اختیار کر گئی تو حکومت پاکستان نے پاکستانی فوج کو حکومتی رٹ اور امن و امان قائم کرنے کے لیے مغربی پاکستان سےمزید فوجی دستے مشرقی پاکستان بھیجے اور وہ حکومتی رٹ قائم کرنے میں کامیاب بھی ہو گئے۔
لیکن دوسری طرف اندرونی خانہ جنگی کی اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے تمام بین الاقوامی قوانین کو پامال کرتے ہوئے پاکستان کےمشرقی اور مغربی محاذ پر جنگ مسلط کر دی۔
اس وقت بھارتی فوج کے آرمی چیف جنرل جگجیت سنگھ اروڑھ جبکہ مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کی کمان لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کے ہاتھ میں تھی۔ جب کسی ملک یا قوم میں غدار پیدا ہو جائیں تو پھر شکست اس قوم کا مقدر بن جاتی ہے۔
بنگالیوں نے بھی بجائے اپنے حق کے لیے لڑنے اور اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کے بھارت کے ایما پہ پاکستان کے ساتھ بھرپور غداری کا مظاہرہ کیا۔
یوں پاکستان کو اپنے سے چار گنا بڑے دشمن بھارت کی جدید اسلحے سے لیس دو لاکھ فوج اور تقریباً ڈیڈھ لاکھ ” مکتی باہنی” کے روپ میں چھپےغداروں سے صرف 90 ہزار فوج کے ساتھ لڑنا پڑا۔
اپنوں کی غداری و بے وفائی ، پڑوسی ملک بھارت کی دیرینہ نفرت اور تخریب کاروں کی مدد اور بین الاقوامی طاقتوں کی حمایت نے مشرقی پاکستان میں پاکستانی دفاع کو کمزور کر دیا تھا۔
اسی طرح تمام فوجی،سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے ملازمین نے بھی اس تحریک میں "مکتی باہنی” کے لیے مخبر کا بھرپور کردار ادا کیا۔بقول شاعر اذہر درانی کے شریک جرم نہ ہوتےتو مخبری کرتےہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی 26 مارچ 1971ء کو شروع ہونے والی یہ تحریک 16 دسمبر 1971ءکو اختتام پزیر ہوئی اور یوں مشرقی پاکستان دنیا کے نقشے پہ بنگلہ دیش بن کر نمودار ہوا۔
اس طرح رقبے اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک پاکستان اپنے اس اعزاز سے محروم ہو گیا۔درحقیقت مشرقی پاکستان کے اس وقت کے مسائل ایک دو سالوں کے پیدا کردہ نا تھے بلکہ بنگالیوں نے اپنی علیحدگی کا اظہار قیام پاکستان کے بعد اس وقت ہی کر لیا تھا جب قائد اعظم محمد علی جناح 1948ء میں ڈھاکہ میں عوام کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
اس دوران جلسے میں قومی زبان بنگالی کے نعروں نے قائداعظم کو یہ کہنے پہ مجبور کیا کہ ” اگر ہم لوگ اپنے آپ کو بنگالی، پنجابی، سندھی وغیرہ پہلے اور مسلمان اور پاکستانی محض اتفاقاً تصور کرنے لگے تو پھر پاکستان بکھر جائے گا۔
لہٰذا ہمیں متحد ہو کر رہنا ہےہم سب ایک ہیں اور ہمیں قومی دھارے میں رہ کر چلنا ہو گا ” ۔
Imtiaz Ayub Urdu Columns Video
اسی طرح 1968ء میں ہونے والی اگرتلہ سازش میں صدر ایوب خان کا شیخ مجیب الرحمٰن کو غداری کی اتنی بڑی سازش میں ثبوتوں کے ساتھ پکڑنے کے باوجود رہا کر دیناسقوط ڈھاکہ کی راہ ہموار کرنے میں بہت معاون ثابت ہوا۔ شیخ مجیب الرحمٰن جو اگرتلہ سازش کے سرغنہ تھے انہوں نے اعلٰی بھارتی حکام سے بھارتی شہر اگرتلہ میں خفیہ ملاقات کی۔
سازش میں طے پایا کہ بھارت مکتی باہنی کی مالی اور مادی امداد کے علاوہ فوجی ٹریننگ کے ساتھ مشرقی پاکستان میں مسلح بغاوت سے ایک آزاد ریاست بنگلہ دیش بنانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔پاکستانی خفیہ ایجنسی نے اس سارے منصوبے کو بے نقاب کر کے شیخ مجیب الرحمٰن کے ساتھ 1500 سے زائد بنگالیوں کو گرفتار کر لیا اور ان پہ غداری کا مقدمہ چلا دیا۔
لیکن ایوب خان کی حکومت کے خلاف چلنے والی عوامی تحریک کے خاتمے کے لیے منعقدہ گول میز کانفرنس کے شرکاء کے مطالبہ پر 22 فروری 1969ء کو یہ مقدمہ واپس لے لیا گیا۔
صدر ایوب خان کے اس فیصلے نے شیخ مجیب الرحمٰن کو ” بنگلہ بندو” یعنی بنگالیوں کا بھائی کے خطاب سے نوازا اور اس طرح شیخ مجیب الرحمٰن بنگالیوں کے حقوق کی تحریک اور عوامی لیگ کا سرکردہ لیڈر بن کر اُبھرا۔
رہی سہی کسر 1970ء کے انتحابات کے نتائج تسلیم نا کرنا اور شیخ مجیب الرحمٰن کے چھ نکات کو یکسر نظر انداز کرنا اور سیاسی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کا یہ نعرہ کہ "ادہر ہم اُدہر تم ” وہ غلطیاں تھیں جنہوں نے سقوط ڈھاکہ کو ظہور پزیر ہونے میں اہم کردار ادا کیا ۔
یوں ہم سے ہمارا مشرقی بازو کاٹ دیا گیا۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان ماضی کی کسی قسم کی غلطی دہرانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
ہمیں اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ملکی مفاد کے ساتھ کھڑا ہونا ہے تب جا کے پاکستان ایک مضبوط ریاست کے طور پر اپنا کردار ادا کر سکے گا۔مذہبی کارڈ کا بے جا اور بے وقت استعمال پاکستان کے نظریات کو ٹھیس پہنچانے میں سر فہرست ہے۔
ہمیں اب ماضی کی غلطیوں کو پسِ پشت ڈال کر ایک مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا۔ اب ہم سب کو اس ملک کی آبیاری کے لیے خون کا آخری قطرہ تک بہا دینے سے گریز نہیں کرنا ۔
تب جا کے پاکستان پھلے پھولے گا اور پروان چڑھے گا۔ اگر ہم قائداعظم کے بتائے ہوئے ذریں اصول ایمان، اتحاد اور تنظیم کو اپنا مقصد بنائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہماری کامیابی کا راستہ نہیں روک سکتی۔