کالم و مضامین

جنرل عاصم منیر سے جنرل ساحر شمشاد مرزا تک

Raja Shahid Rasheed column

دنیا کی عسکری تاریخ میں کئی نامی گرامی جرنیل گزرے ہیں‘ خونی ہٹلر سے ٹکرانے والے فرانسیسی جنرل ڈیگالے کو آج بھی ایک مدبر سپہ سالار کے طور پر مانا اور جانا جاتا ہے۔

امریکی جنرل میکارتھر اس قدر قابل قدر تھے کہ وہ واحد امریکی جنرل ہیں جنہیں بعد ازاں فیلڈ مارشل بھی بنایا گیا اور دوسری جنگِ عظیم میں جنرل میکارتھر نے ہی جاپانی فوج کو ہتھیار پھینکنے پر مجبور کر دیا تھا۔

جنرل مصطفی کمال کا تو نام ‘ کام اور مقام ہی بے مثال و باکمال ہے بلکہ لازوال بھی‘ دنیا انھیں اتا ترک کے نام سے جانتی ہے۔

چینی مارشل چو تہہ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ 1970 ءکی دہائی میں ہمارے بلند قامت سوشلسٹ (سُرخے) چین پہنچ کر جنرل چوتہہ کے ساتھ ایک تصویر بنوانے کو ترستے تھے اور اپنی کتب میں ان کاموں‘ کرامتوں اور ملاقاتوں کا ذکرِ خیر بھی فخراً فرماتے رہے۔

اسی طرح پوری دنیا میں‘ بالخصوص مسلم اُمہ اور پاکستانی قوم میں پاک فوج کے دبنگ شیر سپہ سالار جنرل راحیل شریف کو جو پذیرائی‘ نیک نامی اور محبت نصیب ہوئی وہ بے بدل ہے اور باوقار بھی ۔ میرا اپنا ہی ایک شعر ہے کہ:

ایک مسلم سا کسی کا اُوج نہیں ہے
پاک فوج جیسی کوئی فوج نہیں ہے

جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت اس وقت تک 16 جرنیل پاک فوج کی سربراہی کے منصب پہ فائز رہ چکے ہیں جن میں پہلے دو آرمی چیف انگریز تھے۔

جنرل قمر جاویدباجوہ کو 29 نومبر 2016 ءکو جنرل راحیل شریف کی ریٹائر منٹ کے بعد پاک فوج کا 16 واں سربراہ بنایا گیا تھا اور اب جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت مکمل ہونے کے بعد جنرل سید عاصم منیر احمد شاہ آرمی چیف اور جنرل ساحر شمشاد مرزا بطور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی تعینات ہوئے ہیں۔

میں دل کی گہرائیوں سے محترم جنرل شاہ جی اور جناب جنرل مرزا جی کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ حاکمِ برحق انھیں اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھیں ان پہ خصوصی فضل و کرم فرمائیں‘ اللہ غفور و غفار‘ رب قادر و قدیر انھیں ہر میدان اور ہر امتحان میں سرخرو اور کامران فرمائیں۔

فلائنگ آفیسر منہاج الحسن شہید

شاندار شخصیت کے مالک جنرل ساحر شمشاد مرزا جی کے نام سے مجھے تب واقفیت ہوئی جب وہ کور کمانڈر راولپنڈی کے منصب پہ فائز ہوئے۔ چکوال اور گوجر خان کے درمیان ایک گاﺅں ملہال میں پیدا ہونے والے اس بہادر و دبنگ بندے سے مجھے دلی محبت و ہمدردی ہے جنھوں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو ان کے والدین وفات پا چکے تھے ‘ ایک یتیم بچے نے انتہائی محنت و لگن کے ساتھ خود پڑھا‘ ان کا کوئی بہن بھائی اس دنیا میں نہیں۔

جنرل مرزا جی کو جب PMA لانگ کورس کیلئے ہاﺅس ایڈریس لکھنا پڑا تو انھوں نے اپنی یونٹ کا پتہ لکھوا دیا۔ جنرل سید عاصم منیر شاہ جی کی تعیناتی کی اس قدر خوشی ہے جیسے سب سے زیادہ خوشی مجھے ہی ہوئی ہے اور وجوھات اس کی یہ ہیں کہ سید ہیں‘ حافظِ قرآن ہیں‘ ایک مذہبی گھرانے سے ہیں اور اسلامی سوچ سچائی والے ہیں‘ اعزازی شمشیر یافتہ ہیں۔

ان کی ساری فیملی والدِ گرامی اور بھائی بھی تعلیم یافتہ ہیں صاحبِ علم اور ادب دوست انسان ہیں۔ یہ میرے علاقہ ڈھیری حسن آباد راولپنڈی کینٹ ایریا سے ہیں میرے پڑوسی بھی ہیں۔ ان دونوں جنرلز کا تعلق شہیدوں اور غازیوں کی سرزمین پوٹھوہار سے ہے۔

درمیان جہلم و اٹک مرغزار
سر زمین کج کلاہاں پوٹھوہار

اگر ہم عسکریت کے حوالے سے ہی بات کریں تو سوھنے دیس پوٹھوہار نے جنرل موسیٰ سے جنرل عاصم منیر و جنرل ساحر مرزا تک کئی نامور جرنیل پیدا کیے جن کے نام شامل کرنے کیلئے ایک نہیں کئی ایک کالم قلمبند کروں تو وہ بھی کم ہوں گے۔

جب جنرل اشفاق پرویز کیانی آرمی چیف تھے تب ڈی جی آئی ایس آئی Lt جنرل ظہیر الاسلام راجہ تھے میرے مٹور راجگان کہوٹہ سے اور اب پھر سے تینوں اہم فوجی عہدوں پر پوٹھوہار کے جرنیل ہیں کیونکہ ڈی جی آئی ایس آئی Lt جنرل ندیم انجم کا تعلق بھی گوجر خان سے ہے۔

حکومت کی جانب سے جنرل ساحر شمشاد کی بطور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور جنرل سید عاصم منیر کی بطور آرمی چیف نامزدگی کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ اس نامزدگی سے کوئی جنرل سُپر سیڈ نہیں ہوا‘ حکومت نے GHQ کی جانب سے بھجوائی گئی سینیارٹی لِسٹ کے مطابق پہلے دو افسران کو نامزد کر دیا جس سے سینیارٹی لسٹ متاثر نہیں ہوئی۔ میرے خیال میں ہماری عسکری تاریخ میں شاید پہلی بار سینیارٹی کو اولین ترجیح ملی ہے جو خوش آئند بات ہے۔

لگتا ہے کہ اس ضمن میں ”شریفوں“ نے ماضی سے سبق سیکھا ہے اور انھوں نے سینیارٹی لسٹ کو درہم برہم کرنے کی بجائے ٹا پ ون اور ٹو کو فور سٹار جنرلز کے عہدوں پر ترقی دے کر میرٹ پر عملدرآمد کے عوامی خواب کو حقیقت کا روپ دے کر اپنی تاریخ تبدیل کرنے کی اور اپنی ساکھ بحال کرنے کی کوشش کی ہے۔

ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو نے ایک کمزور انسان سمجھ کر سینیارٹی کے اعتبار سے ساتویں نمبر والے جنرل ضیاءالحق کو نامزد کر دیا تو چھ جرنیل گھر چلے گئے تب ادارے کو بہت مشکل پیش آئی تھی ‘ پھر اس کے بعد ”امیر المومنین“ حضرت ضیاءالحق نے بھٹو PM پاکستان اور آئین پاکستان کے ساتھ جو ”کھلواڑ“ کیا وہ ہماری تلخ ترین تاریخ کے سیاہ ابواب ہیں۔ مشکلات اور تاریکیوں میں ڈوبا ہوا میرا پاکستان آمریت کے کربلا سے گزرتا ہوا اور نام نہاد جمہوریت کے جبرو ستم سہتا ہوا ایک بار پھر سے برائے نام جمہوریت و سیاست کے پُل صراط پہ کھڑا المدد المدد پکار رہا ہے۔

بھوک پھرتی ہے میرے دیس میں ننگے پاﺅں
رزق ظالم کی تجوری میں چھُپا بیٹھا ہے

ان حالات میں سول و ملٹری کے مثالی تعلقات اور اتفاق فرض ہو گیا ہے ”سوھنی دھرتی کی ہریالی اور ملک و قوم کی خوشحالی“ کے صرف اس ایک ہی ایجنڈے پر سب اسٹیک ہولڈرز ‘ اہلِ پاکستان‘ خاص و عام و تمام کیلئے اتحاد‘ اجتہاد اور جہاد لازم و ملزوم ہو گیاہے‘ تبھی ممکن ہو گا سبز امن سویرا۔ میرے ملک کے غریب عوام اپنی نئی عسکری قیادت سے یہ اُمید باندھے اور آس لگائے بیٹھے ہیں کہ پاک فوج پہلے سے زیادہ مضبوط اور ایک فعال ادارہ بن کر اُبھرے گی۔ سب کرتا دھرتاﺅں کی خدمت میں بصد تکریم و احترام التماس ہے کہ کہنے والوں کو کل کو یہ نہ کہنا پڑے کہ:

ہم بھی کیا عجیب ہیں کڑی دھوپ کے تلے
صحرا خرید لائے ہیں برسات بیچ کر

Raja Shahid Rasheed Column | Pakistani Famous Columnist | Geo News Headlines 7 PM | General Asim Munir – Sahir Shamshad Mirza | 24 November 2022

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button