کالم و مضامین

سیرتِ رسول ‘ خاوند خدائی خزانہ اور بازگشت

Raja Shahid Rasheed pakistani famous urdu columnist
Raja Shahid Rasheed pakistani famous urdu columnist

پاکستان بھر میں سیلاب سے تقریباً 80 اضلاع متاثر ہو چکے ہیں‘ پندرہ سو سے زائد افراد کی جانیں چلی گئیں‘ لاکھوں لوگ پریشان حال رو رہے ہیں‘ کچھ بے گھر خیمہ بستیوں میں سر چھپائے ہوئے ہیں جبکہ زیادہ تر بے آسرا کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

بحالی کے اقدامات ناکافی ہیں اور کچھ کام تو برائے نام ہی ہیں ۔ متاثرین سیلاب کی پر سوز صدائیں‘ پر درد فریادیں سات سمندر پار تک سنائی دے رہی ہیں لیکن صاحبانِ سیاست کی اپنی اپنی ڈفلی ہے اور اپنا اپنا راگ‘ کوئی اقتدار بچانے کیلئے ہاتھ پاﺅں مار رہا ہے اور کوئی حصولِ اقتدار کی لڑائی میں ملک و قوم کے مفاد کو بھلائے بیٹھاہے۔ ان حالات میں سیاست و اہل سیاست پہ کیا لکھوں‘ میں نے سوچا آج کچھ کتب کے حوالے سے بات کر لیتے ہیں۔

”سیرتِ رسول “ یہ مفکر اسلام ڈاکٹر ساجد الرحمن کی بہت ہی معیاری اور منفرد کتاب ہے اور سیرت النبی کے ضمن میں ایک اہم کام ہے۔

معراج النبی کے حوالے سے مولف صفحہ 76 پہ رقم طراز ہیں کہ ”سرورِ عالم جبریل امین کی معیت میں سفر کی ان تمام منزلوں سے گزرتے ہوئے بالآخر اس مقام پر پہنچے جہاں سے آگے جانے کے لیے حضرت جبریل امین نے بھی اعترافِ عجز کیا کہ یا رسول اللہ اگر یہاں سے آگے ذرہ برابر بھی بڑھا تو تجلیات الہیہ سے میرے پر جل کر خاکستر ہو جائیں گے“۔ جامی نے بہت خوب انداز میں شعری جامہ پہنایا ہے کہ:

اگر یک سرِ مُوئے برتر پرم
فروغ تجلٰی بسو زد پرم

اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ یہ اس کا تیسرا ایڈیشن ہے‘ پہلا 1982 ءمیں اور دوسراایڈیشن 2013 ءمیں چھپا تھا۔ پیر صاحب آف بگھار شریف صاحبزادہ ساجد الرحمن متعدد کتب کے مصنف ہیں جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔

”ڈاکٹر حمید اللہ حالات و افکار“،” سیرت رسول‘‘، ” کلمات‘ ‘، ”حضرت مولانا محمد یعقوب“ ، ”اندلس کی اسلامی میراث“، ”رسول اکرم بحیثیت معلم اخلاق“، ”برصغیر میں مطالعہ قرآن“ اور ”خطبات“ (فیصل مسجد میں دئیے گئے) پروفیسر ساجد الرحمن انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے سابق نائب صدر اور یونیورسٹی سے منسلک دعوة اکیڈمی اور شریعہ اکیڈمی کے سابق ڈائریکٹر جنرل ہیں۔

”خاوند خدائی خزانہ“ یہ محترمہ نورین اسلم المعروف نورانی باجی کی خوبصورت کتاب ہے۔ انتساب ملاحظہ فرمائیے پلیز:”پالن ہار کے قائم کردہ اس پہلے رشتے کے نام اور ہر اس بجھے دل شوہر اور بیوی کے نام جوازدواجی زندگی میں خوشگوار تبدیلی کے خواہش مند ہوں“۔

یہ کتاب ہر مسلم میاں بیوی کے لیے بہشتی زیور سمجھی جاتی ہے۔ نورانی باجی روحانی معالج ہیں‘ ان کے آستانے پر ان گنت خواتین آتی ہیں اپنے مسائل سناتی ہیں اور ان کا روحانی حل لے کر جاتی ہیں۔ نورین اسلم نے اپنی اس کتاب میں بھی مشکل مسائل کے آسان حل بتلائے ہیں۔

نورانی باجی جی خود ایک خزانہ ہیں تصوف و طریقت کا ‘ جو بھی ان کے در پہ آتا ہے وہ من کی مرادیں پاتا ہے۔ نورین اسلم المعروف نورانی باجی ایک معروف شاعرہ اور متعدد کتب کی مصنفہ ہیں جن کے نام درج ذیل ہیں۔ ”وہ محبت کا موسم“، ”فالتوکاغذ“، ”رباط“، ”سچائیاں“، ”زندگی شمار کر “،” اگر ماں میری سہیلی ہوتی“، ”محبت اظہار مانگتی ہے“، اور” خاوند خدائی خزانہ“۔

راجہ شاہد رشید کا گزشتہ کالم پڑھنے کےلئے کلک کریں: فوج کو سلام‘ جنرل باجوہ کو عالمی اعزاز مبارک

”باز گشت“ یہ سابق سٹوڈنٹ لیڈر راجہ انور کے منتخب اخباری کالموں کی کتاب ہے جو ماضی میں روزنامہ خبریں میں چھپتے رہے۔ راجہ انور جی میرے سوہنے من موہنے چچا ہیں اور ایک علمی و فکری اور سیاسی رہنما بھی مگر مجھے وہ بحیثیت فلسفی و دانشور و کالم نگار پیارے لگتے ہیں۔

گزشتہ دنوں برمنگھم برطانیہ میں ادبی و ثقافتی تنظیم فانوس کے زیرِ اہتمام ”باز گشت“ کی تعارفی تقریب منعقد ہوئی جس میں بطور مہمان خصوصی راجہ انور جی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”میں اپنے پاکستان کے بیالیس فی صد ان غریب و یتیم بچوں کے ساتھ ہوں جو سکول کا منہ نہیں دیکھ سکتے۔

راجہ جی نے کہا کہ میرے ملک کے حالات انتہائی خراب ہیں اور اس کی وجہ صرف اور صرف رول آف لاءکا نہ ہونا ہے‘ پاکستان کے عوام کو اب جمہوریت اور حقیقی آزادی کیلئے فیصلہ کن جنگ لڑنا ہو گی‘ اب سوشل میڈیا کا دور ہے ہر آدمی بول سکتا ہے‘ حق بات کہنے کے لیے دلوں میں موجود خوف کے بت کو توڑنا ہو گا۔ جب تک رول آف لاءکی حکمرانی نہیں ہو گی۔

اس وقت تک ملکی حالات ٹھیک نہیں ہو سکتے“۔ راجہ انور 1968-70 ءگارڈن کالج سٹوڈنٹ یونین NSF کے صدر رہے‘ پھر پنجاب یونیورسٹی سے فرسٹ پوزیشن میں ایم اے فلسفہ کیا‘ 1973-77 ءسابق PM ذوالفقار علی بھٹو کے مشیر رہے‘ 1988-90 ءجنیوا میں UN کے کنسلٹنٹ برائے امور افغانستان رہے۔

راجہ انور نے تین فوجی ڈکٹیٹرز کا سامنا کیا جیلیں دیکھیں سزائیں کاٹیں‘ 1968 ءمیں انھیں ایوب خان نے قید کیا‘ 1970 ءمیں یحییٰ خان نے ایک سال کیلئے قید کیا‘ 1978 ءمیں جنرل ضیاءالحق نے غیر حاضری پر 14 سال سزا سنائی ‘ ان پر بغاوت کے بے شمار مقدمات بنائے گے۔

1979 ءمیں راجہ انور کا بل پہنچے تو وہاں انھیں 1980-83 ءتین سال قید میں رکھا گیا۔ چنانچہ پاکستان کے ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات نے کابل میں ان کی پھانسی تک کی خبریں نشر کر دیں۔ کابل سے وہ جرمنی چلے گئے اور 1996 ءمیں 17 سالہ جلا وطنی کاٹ کر وطن واپس آئے تو ان کے والدین سمیت آدھا قبیلہ قبرستان پہنچ چکا تھا ۔ سائیں پشوری نے کہا تھا کہ:

بوٹے امباں دے کیتے برباد سائیاں
پھُل اکاں دے رکھے سنبھال بھُل کے

”بڑی جیل سے چھوٹی جیل تک“،” ہمالہ کے اس پار“،” جھوٹے روپ کے درشن“، ”دہشت گرد شہزادہ“، ”چلتے ہوتو کابل کو چلئیے“،” مارکسی اخلاقیات“ اور ”بازگشت “موصوف کی کتب ہیں۔ اہل ادب و صحافت و سیاست کے اساتذہ و طلبہ کیلئے ان کتب کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔

راجہ انور زندہ لاشوں میں وہ زندہ شخص ہیں جن پہ سید ضمیر جعفری ایسی عظیم ہستیوں نے شاعری کی۔ پنجاب یونیورسٹی میں جب جاوید ہاشمی اور راجہ انور کے مابین کانٹے دار الیکشن ہو رہا تھا تب ضمیر جعفری جی نے یہ نعرہ نما شعر کہا تھا کہ:

اچھے اچھے کاج کر ے گا
راجہ انور راج کرے گا

Raja Shahid Rasheed Urdu Columnist | Flood in Pakistan 2022 | ‘Needs are so great,’ says Angelina Jolie on Pakistan floods

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button