ہر شخص اپنی بساط کے مطابق کرپشن کی گنگا میں نہا رہا ہے
کرپشن کی گنگا ہے جو پاکستان میں بہہ رہی ہے۔ ہر شخص اپنی بساط، اپنی پہنچ اور اپنی ذہانت کے مطابق اس گنگا میں نہا رہا ہے اور کرپشن کا تعلق صرف روپے پیسے سے نہیں بلکہ بے حیائی اور بے حیائی پھیلانے والے ذرائع بھی ہیں۔
کرپشن پاکستان کا ہاٹ ایشو ہے۔ آپ صرف حکمرانوں اور سیاستدانوں پر کرپشن نہیں تھوپ سکتے۔ پاکستان میں ایک کرپٹ ڈھونڈیں، ہزار ملیں گے، آج 95 فیصد پاکستانی کرپٹ ہو چکے ہیں۔
شاید 5 فیصد بمشکل اس لعنت سے بچے ہوں۔ ہم نے کرپشن کے ایسے ایسے نادر اور منفرد طریقے ایجاد کئے ہیں کہ شیطان کی عقل بھی دنگ رہ جاتی ہے۔
ہم اپنی کرپشن پر نہ نادم ہوتے،نہ شرمسار بلکہ ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ یہ ہمارا حق ہے۔ ہمیں بھی تو اپنے بچوں کا پیٹ پالنا ہے، ہماری بھی تو ضرورتیں ہیں۔ ہم کونسی ویلفیئر سٹیٹ میں رہتے ہیں کہ ہمارے وظیفے بندھے ہیں۔
فرمان ہے کہ جیسی عوام ہوتی ہے ویسے ہی حکمران ان پر مسلط کئے جاتے ہیں۔ ہم حکمرانوں پر تنقید کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ حکمرانوں کی غلط کاریوں کی وجہ سے پاکستان پر عذاب آتے ہیں لیکن ”جیسی عوام ویسے حکمران“ کے مصداق کو بھول جاتے ہیں۔
ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو صاف پتہ چل جائے گا کہ ہم جتنے جوگے ہیں اتنی کرپشن، مکاریاں، دھوکے بازیاں اور پیسہ کمانے کیلئے پہنچ کے مطابق غلط کام کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا بہت اچھی اور بڑی ہی طاقتور چیز ہے لیکن ہمارے ہاں سوشل میڈیا کا بھی غلط استعمال ہوتا ہے۔ چند ٹکوں کی خاطر ہماری مسلمان بہنیں ادھ ننگی ویڈیوز سوشل میڈیا ویب سائٹس پر اپ لوڈ کر رہی ہیں۔
آج انگریز جیت گیا اور ہم ہار گئے ہیں کہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کو بربادکرنا ہو تو اس ملک کے نوجوانوں میں بے حیائی پھیلا دو۔ اب ہمارے ہاں بے حیائی کرنے والوں کو چند ٹکے ڈالروں کی مد میں دیئے جانے لگے ہیں۔
پہلے گھر چھوٹے اور افراد زیادہ ہوا کرتے تھے اب گھر بڑے اور افراد کم ہیں۔ اوپر سے سوشل میڈیا کا عذاب ہر بڑے سے چھوٹے ہاتھ میں موبائل اور الگ الگ کمروں میں سکونت پذیر ہیں۔
موبائل بہت اچھی ہے لیکن اس کا بھی ہمارے ہاں زیادہ تر غلط استعمال ہو رہا ہے۔ اس موبائل نے شریف سے شریف گھرانے کے پردہ کو چاک کر کے رکھ دیا ہے۔ الگ کمروں میں ویڈیو کالز اور ناجانے کیا کچھ ہونے لگا ہے۔
زنا عام ہو چکا ہے، کچھ غربت سے مقابلہ کرنے کے نام پر زناءکر رہے ہیں اور زیادہ تر خواتین و حضرات خواہش پوری کرنے کیلئے زناءکر رہے ہیں۔
حکمرانوں سے لیکر غریب سے غریب تر انسان غربت کے نام پر غلط کاریاں کر رہے ہیں۔ بلا شبہ پاکستان سیلاب کے پانی سے نہیں بلکہ حکمرانوں کی کرپشن اور عوام کی مہربان حرکتوں کے نتیجہ میں آفت سے ڈوبا ہے۔ ہماری نسلیں سوشل میڈیا کے سمندر میں غرق کر دینا غیر مسلموں کی بہت بڑی سازش ہے اور ہم ان کی سازشوں پر پورے اتر رہے ہیں۔
75 برسوں میں ہمارے ملک میں ہر چڑھتے دن غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ کئی حکمران آئے لیکن پاکستان آگے جانے کی بجائے دن بدن پیچھے جا رہا ہے کہ ہمارے ہاں وزیر اعظم سے لیکر ایک گٹر صاف کرنے والے تک سب کے سب اپنی پہنچ کے مطابق کرپشن کر کے وطن عزیز کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
فٹ پاتھ پر بیٹھا سائیکل کو پنچر لگانے والا ٹائر ٹیوب کھولتا ہے اور سائیکل کے مالک کی جیسے نظر ادھر ادھر ہوتی ہے وہ ٹیوب میں کیل یا سوئی مار کر ایک پنچر کو تین چار بنا دیتا ہے۔
کیا یہ کرپشن نہیں ہے؟ کیا یہ کام اللہ کی ناراضگی کا باعث نہیں ہے؟ ایک سبزی یا فروٹ فروخت کرنے والا ٹھیلے پر سامنے دل کو چھو لینی والی سبزی یا فروٹ لگا دیتا ہے، خریدار کو گلا سڑا شاپر میں بڑی صفائی ڈال کر دیتے ہیں، کیا یہ کرپشن نہیں ہے؟ ٹھیک ہے میں مانتی ہوں کہ غربت میں بہت اضافہ ہوا ہے لیکن اگر ہم سب خود ٹھیک ہو جائیں اور جنہیں ووٹ دیتے ہیں ان کی غلط کاریوں پر ان کا دفاع کرنے کی بجائے ان کے گھروں کے آگے بیٹھے کر دھرنا دے کر پوچھ پریت اور مزاحمت کریں تو غربت ختم ہو سکتی ہے۔
میں یہاں 75سالوں میں آے ہوے تمامحکمرانوں کو غریب کوغریب تر اور امیرکو امیر تر بنانے کا ذمہ دار سمجھتی ہوں۔ ہمارے ملک میں نکمے سے نکما سیاستدان بھی کامیاب سیاست کر سکتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں سیاستدان ایک دوسرے سے نہیں جھگڑتے بلکہ عوام اپنے اپنے لیڈر کی حمایت میں ایک دوسرے سے لڑتے ہیں جبکہ اوپر کی سطح پر سب سیاستدان ایک ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں سیاسی بحران ہونے کے ساتھ ساتھ عقلی بحران بھی شدت اختیار کر چکا ہے۔ غلط سیاستدان کو عوام بے لوث دفاع کرتے ہیں یہاں تک کہ قتل و غارت ہو جاتی ہے۔ ایسے لیڈروں کے پیچھے ہمارے ہاں لوگ جان دے دیتے ہیں جنہوں نے کبھی اپنے سیاسی لیڈر سے مصافحہ تو کیا دور سے بھی نہیں دیکھا ہوتا۔
ہمیں سب سے پہلے خود کو ٹھیک کرنا ہو گا، اپنے لیڈروں کی غلط کاریوں پر زندہ باد کا نعرہ لگانے کی بجائے مردہ باد کا نعرہ لگانا ہو گا۔ سڑکوں پر آنا ہو گا۔ بجلی کے بل، آٹے، گھی لینے کیلئے ہم لائنوں میں لگ جاتے ہیں حکمرانوں کو گالیاں بھی دیتے ہیں لیکن بجلی کا بل بھی مانگ تانگ کر ادا کرتے ہیں، آٹا، گھی و دیگر راشن بھی ادھار پکڑ کر لیتے ہیں لیکن حکمرانوں کے گھروں کا گھراﺅ نہیں کرتے۔
فوج کو سلام‘ جنرل باجوہ کو عالمی اعزاز مبارک
ہمارے ہاں خودکشیوں کی بجائے حکمرانوں کا گریبان پکڑنے کا رواج عام ہو جائے تو کبھی کسی کو خودکشی کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے لیکن ہم اس قوم میں سے ہیں۔
جہاں روزانہ صبح اٹھنے پر سو کوڑے مارنے کا اعلان کیا جائے تو ہم سو کوڑے بھی لائن میں کھڑے ہو کر کھائیں گے اور وقت کم ہونے کی صورت میں کوڑے مارنے والوں سے عرض کریں گے کہ کوڑے مارنے والوں کی تعداد میں اضافہ کریں تاکہ ہم جلدی کوڑے کھا کر اپنے اپنے کاموں پر وقت سے پہنچ سکیں۔ ہمارے ہاں حکمران نہیں بلکہ عوام خود غلط ہے۔
غربت کا ڈھنڈورا پیٹنے سے بہتر ہے کہ سب سے پہلے ہم اپنے آپ کو درست کریں پھر حکمرانوں کو ایسا سیدھا کریں کہ وہ دوبارہ ٹیڑھا ہونے کا سوچیں بھی نہ۔ کہیں چلے جاو بغیر رشوت کے ہمارا کام نہیں ہوتا۔ ہم انہیں رشوت دینے میں اپنی خیر سمجھتے ہیں حالانکہ یہ غلط ہے۔ نہ اس غلطی کو حکمران ٹھیک کرنا چاہتے ہیں نہ ہم عوام ہی ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔