امریکی صدر نکسن اور دین ِاسلام
عالمِ زمیں پر اللہ کا قانون ہی سب سے بڑا اور انصاف پر مبنی قانون ہے ، منکرِ اسلام اس بات کو تسلیم کریں یا نا کریں ،سورہ انعام کی 125 ویں آیت میں رب کریم ارشاد فرماتے ہیں، کہ ’’ پس االلہ جس کو (اپنے فضل) ہد ایت دینے کا ارادہ فرماتا ہے ،اس کا سینہ اسلام کیلئے کشادہ فرما دیتا ہے۔
یہی بات سورہ آلِ عمران میں بھی واضح بیان کی گئی ہے حدیث ہے کہ ’’جس کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے ‘‘ صحیحَ۔ متفق علیہ۔یہاںدین کی سمجھ سے مراد کتاب و سنت کا علم ، اسلامی شریعت کے ا حکام احادیث اور حلال و حرام میں تمیز اور ان کو پرکھنے اور سمجھنے کا علم ہے۔
دنیا میں دین اسلام سے متاثر ہو کر اپنے آبائی مذاہب کو ترک کر کے لوگوں کا اسلام قبول کرنے کا تناسب یروشلم پوسٹ کے مطابق گزشتہ دہائی کے دوران برطانیہ اور فرانس میں مجموعی طور پر ایک لاکھ افراد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔
’ دی گارجین ‘ کے مطابق سالانہ 5000 برطانوی شہری اسلام قبول کرتے ہیں جن میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہے ، جرمنی کےYedioth Ahronoth (یدیوتھ احرونوتھ ) کے مطابق یہ تعداد 4000 سالانہ ہے، دی نیویارک ٹائمز کے مطابق 25 ہزار امریکی شہری سالانہ کی تعداد میں مذہب ِ اسلام میں داخل ہوتے ہیں ۔
پیو ریسرچ کی رپورٹ کے مطابق اسلام ایک خوبصورت اورسب سے تیزی سے ترقی کرنیوالا مذہب ہے، کئی سالوں سے بہت سے لوگ اسلام کا مطالعہ کرکے اس میں داخل ہوتے ہیں، یہاں تک کہ مشہور شخصیات جنہوں نے عالمی شناخت حاصل کی وہ پُر امن مذہب اسلام کی خوبصورتی کو دیکھ کر اپنے آبائی مذہب کو خیر باد کر کے اسلام ِ میں داخل ہو گئے۔
ان میں سر ِ فہرست عظیم باکسر محمد علی ، نور ہاشم عبداللہ جو کہ ایک عیسائی مبلغ تھے اور انہوں نے کئی مسلمانوں کو عیسائیت میں داخل کیا تھا، خود مسلمان گئے ، انڈیا کے معروف موسیقار اے، آر ،رحمان جن کا پورا نام اللہ رکھا رحمان ہے ہندو گھرانے میں دلیپ کمار کے نام سے جانے پہچانے جاتے تھے اسلام قبول کیا۔
دنیا کے غیر متنا زع ہیوی ویٹ چمپین مائک ٹائسن نے اپنے آبائی مذہب کو خیر باد کرتے ہوئے اسلام قبول کیا ، ہندو گھرانے میں پیدا ہونیوالی انڈین فلم انڈسٹری کی معروف اداکارہ شرمیلا ٹیگور بھی 1969 ء میں مشرف با اسلام ہوئیں اور ان کا نام اکا بیگم عائشہ سلطانہ ہے۔
دنیا کے معروف پوپ گلوکار اور ڈانسر مائیکل جیکسن کی بہن جینیٹ جیکسن 2013 ء میں اسلام قبول کرکے مسلم گھرانے کی فرد ہیں ۔امریکا کے آنجہانی سابق صدر نکسن کااسلام کے بارے میں پڑھنے کاخیال ہوا تو اس نے امریکی انٹیلی جنس سے اس موضوع پر تحقیق کرنے کا حکم دیا ، انٹیلی جنس نے جو تحقیق کی وہ خاصی طویل اور گہری تھی۔
کے پی کے میں شکست وجہ عمران خان کا رویہ
لہذا صدر نکسن نے اس تحقیق کو پڑھنے اور اس کا خلاصہ کرنے کیلئے اپنے مشیر برائے امور خارجہ اور امریکی سلامتی کونسل کے ڈپٹی ڈائریکٹر رابرٹ کرین کے سپرد کیا ، جن کا شمار امریکا کے معروف سیاسی ماہرین اور ادیبوںمیں ہوتا ہے وہ امریکا میں تہذیب اور تجدید کے مرکز کے بانی اور دنیا کی چھ زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔
رابرٹ کرین نے بین الاقوامی قانون پبلک لاء میں ڈاکٹریٹ کیا پھر وہ ہارورڈ یونیورسٹی آف انٹرنیشنل لاء کے صدر بھی رہے ۔ ڈاکٹررابرٹ ڈکسن کرین نے امریکی انٹیلی جنس کی تحقیق کو پڑھاتوانہیںمزید اس کے بارے میں جاننے کی جستجو پیدا ہوئی لہذا ڈاکٹر رابرٹ کرین نے اسلامی سمینارز اور لیکچرز میں شرکت کرنا شروع کر دی۔
رابرٹ نے ایک نقطے کو محسوس کیا کہ ہارورڈ یونیورسٹی میں تین سال کی تعلیم کے دوران اسے ان کے قوانین میں ایک جگہ بھی لفظ ’’انصاف ‘‘ نہیں ملا ، ان کا کہنا تھا کہ جب میں نے اسلام پر ریسرچ کی اسے پڑھا تو مجھے لفظ ‘‘انصاف ‘‘بہت کثرت سے ملا۔
US President Nixon and Islam Video
اورتحقیق کے دوران قانون کے طالب علم کے طور پر میں نے اسلام میں وہ تمام قوانین پائے جن کا میں نے مطالعہ کیا تھا ۔ڈاکٹر رابرٹ ڈکسن کرین نے 1981 ء میں اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا نام حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نسبت سے فاروق رکھا ، ڈاکٹر فاروق نے ا یک قانونی مکالمے کے دوران یہودی قانون کے پروفیسر سے استفسار کیا کہ کیا تم جانتے ہو امریکی آئین میں وراثت کا قانون ؟ یہودی نے کہا ہاں وہ آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے۔
ڈاکٹر رابر ٹ کرین نے اسے کہا کہ اگر میں دس سطروں پر مشتمل قانونِ وراثت آپ کو دکھائوں تو کیا آپ یقین کریں گے ، اس نے کہا یہ نہیںہوسکتا ، چناچہ قران کی آیات یہودی پروفیسر کو دیں وہ کئی دنوں کی تحقیق کے بعد ڈاکٹر فاروق ( رابرٹ کرین ) کے پاس آکر کر کہنے لگا کہ اتنی جامعیت اور انصاف کے تمام تر تقاضے پورے کرتے ہوئے وراثت کی تقسیم اس سے بہتر کسی مذہب میں نہیں اور وہ مسلمان ہوگیا ۔
دنیا کے منفی اور تنگ ذہن اسلامک فوبیا کا شکار حقیقت کو پس ِ پشت ڈال کر دنیا کے مذاہب کے مابین نفرت اور فساد پیدا کر نے کے مرتکب ہیں دنیا کا مذہبی امن بین المذاہب مکالمے سے ہی ممکن ہے ۔