مذہب اور توہین انسانیت
تحریر:منزہ سیّد
گزشتہ دنوں شہرِ اقبال میں 9 سال سے مقیم ایک سپورٹس گارمنٹ فیکٹری کے سری لنکن منیجر پریانتھا کمارا پر مٹھی بھر افراد کی طرف سے ”توہینِ مذہب“کی آڑ میں سفاکانہ تشدد، قتل اور ہجوم کی مجرمانہ خاموشی نے ظلم و بربریت کی ایسی داستان رقم کی کہ جس کی وجہ سے عالمی سطح پر نہ صرف پورے پاکستان کا سر شرم سے جھک گیا بلکہ اس کے ساتھ ہی اندرونی و بیرونی اسلام دشمن اور ملک دشمن عناصر کو مذہب اسلام اور پاکستان پر انگلیاں اٹھانے کا بھرپور موقع میسر آیا۔
اس روح فرسا واقعے نے ایک طرف تو پاکستانی مسلمانوں کی مذہبی تربیت و تعلیمات کو داغدار کیا تو دوسری طرف پاکستان اور سری لنکا کی دیرینہ دوستی کو بھی خطرے میں ڈال دیاہے کیونکہ سری لنکا دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو پاکستانی عوام کے لئے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں آنکھوں کے عطیات فراہم کرتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ سری لنکا نے ہندوستان کی طرف سے کئے گئے ہر قسم کے پاکستان مخالف پروپیگنڈے کے مقابل ہمیشہ پاکستان کی بھرپور حمایت کر کے وطنِ عزیز کو عالمی سطح پر تنہا ہونے سے بچانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔۔اس انسانیت سوز واقعے کی وڈیوز سامنے آتے ہی پاکستانی عوام سمیت وڈیو دیکھنے والے ہر شخص کی طرف سے شدید مذمت اور شہرِ سیالکوٹ کے لئے نفرت و بیزاری کے جذبات کا اظہار کیا گیا۔
کیونکہ اگست 2010 ءمیں دو نوجوان بھائیوں کے وحشیانہ قتل پر بھی سینکڑوں لوگوں کے ہجوم نے بالکل اسی طرح خاموشی سے تماشہ دیکھا اور قاتلوں کو روکنے کے لئے کوئی بھی کوشش نہ کی تھی۔اگر ان دونوں روح فرسا واقعات سے پہلے کے سیالکوٹ پر نظر ڈالی جائے تو ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کے شہر کی مٹی جذبہ حب الوطنی،شعر و سخن،امن و آشتی اور محبت کی خوشبو سے مہکتی نظر آتی ہے۔۔اس شہر نے ملک کے کونے کونے سے تلاشِ روز گار کے لئے آنے والے محنت کشوں کو اپنی آغوش میں پناہ دی۔
سری لنکا کی دوستی اور سیالکوٹ میں پریانتھا کمارا کے بہیمانہ قتل کا جائزہ لیا جائے تو کہیں نہ کہیں دال میں کالا ضرور نظر آتا ہے کیونکہ پاکستان میں سری لنکن کرکٹ ٹیم کی بس پر قاتلانہ حملہ اور سی پیک کے حوالے سے چائنا کے انجینئرز پر حملے اور قتل،پاکستان دشمنی پر مبنی ایک ہی سازش کی کڑیاں نظرآتی ہیں۔
urdu columnist ٘Munazza Syed. Exclusive Talk
اس لئے حکومتِ پاکستان سے التماس ہے کہ پریانتھا کمارا کے قتل میں شامل تمام درندوں کو قرار واقعی سزا دے کر مقتول کے لواحقین کو انصاف فراہم کرے اس کے ساتھ ہی قاتلوں کے شناختی کارڈوں کے حوالے سے بھی مکمل تحقیقات کی جائیں تا کہ معلوم ہو سکے کہ قاتل اور انہیں بھڑکانے والے کہاں سے آ کر سیالکوٹ میں رہائش پذیر ہوئے۔
یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ ان میں سے کوئی قاتل یا قتل پر اکسانے والا پڑوسی ملک کا بھیجا ہوا تخریب کار ہو ،جو پاکستانی شہری کی حیثیت سے یہاں رہائش پذیر ہو۔
کیونکہ کچھ عرصہ قبل لاہور سے ایک بھارتی شہری گرفتار کیا گیا تھا جو سات آٹھ سال سے پاکستانی شہری بن کر نہ صرف یہاں رہائش پذیر تھا بلکہ سرکاری سکول میں ٹیچر کی نوکری پر بھی تعینات ہو چکا تھا ساتھ ہی کسی لڑکے کا دوست بن کر اس کی بہن سے شادی بھی کر چکا تھا۔اسی طرح پاکستانی فوج نے وزیرستان سے کئی ایسے غیر مسلم بہروپیے گرفتار کئے تھے جو چہروں پر داڑھیاں سجائے ہوئے مدارس میں قرآن پڑھاتے تھے.
لہٰذا یاد رہے کہ ہمارے ملک میں اداروں اور لوگوں کی ”کمزوری“ کی وجہ سے پولیس اور فوج کی وردیاں حاصل کر کے آرمی پبلک سکول پشاور جیسی قتل و غارت گری کی طرح جعلی شناختی کارڈ حاصل کر کے کچھ بھی کرنا مشکل نہیں، سو اس امکان کو بھی مد نظر رکھا جائے کہ پریانتھا کمارا پر تشدد کے بعد لاش کو آگ لگانے تک کی وڈیوز اور سیلفیاں، پاکستان سری لنکا دوستی کو دشمنی میں بدلنے اور مذہبی انتہاپسندی کی آگ میں جلتا ہوا ملک ثابت کر کے دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف نفرت پھیلاتے ہوئے سیالکوٹ کی فیکٹریوں۔
کارخانوں میں غیر ملکی ماہرین کی آمد اور ملکی برآمدات کو رکوا کر پاکستان کی تباہ حال معیشت کو مزید تباہ کرنے کی سازش تو نہیں۔اگر مذہب کی آڑ میں ہونے والے بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات اور قتل و غارت گری کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس بات میں کسی دو رائے کا امکان نہیں کہ پچھلے چند سال سے ایک خاص پلاننگ کے تحت فرقہ واریت کے علمبردار ملکوں نے پاکستان کو مذہبی حوالے سے باردو کا ڈھیر بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور اپنے”نمائندوں“ کو بے تحاشا”امداد“ اور ”فنڈز“ فراہم کئے۔
بعد ازاں پیسے کے پجاری ان درندوں نے فرقہ واریت کی چنگاری کو شعلہ بنانے کے لئے گلی گلی میں اپنے مراکز کھول کر عوام میں انتشار پھیلایا اور اپنے آقاو¿ں سے شاباشی کے طور پر خوب ”مال“ وصول کیا..اس کے ساتھ ہی غربت اور مہنگائی نے بھی لوگوں کے دماغ مفلوج کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔
اس لئے حکومت کو چاہیئے کہ وطنِ عزیز سے انتہا پسندی اور دہشت گردوں کی در اندازی اور ”مقامی تیاری“کا قلع قمع کرنے کے لئے گلی گلی سے فرقہ وارانہ مراکز کے ساتھ ساتھ غربت،جہالت اور مہنگائی کا خاتمہ کرے اور فوری عدل و انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے تاکہ اگر کہیں توہینِ مذہب جیسا واقعہ رونما ہوتا بھی ہے تو عوام عقل و شعور سے کام لیتے ہوئے توہین کے مرتکب شخص یا اشخاص کو قانون کے حوالے کریں اور کسی بھی قسم کی ایسی حرکت سے گریز کریں کہ جس سے ملک و مذہب کی رسوائی اور جگ ہنسائی ہو۔موجودہ حالات کے تناظر میں لکھا ہوا میرا ایک شعر
کہیں مذہب کی چنگاری کہیں شعلہ سیاست کا
ہماری جگ ہنسائی کے پسِ پردہ بہت کچھ ہے۔