عشق
تحریر : عثمان علی
عشق کے لغوی معانی گہرا جذباتی لگاؤ، محبت، الفت، عاشقی وغیرہ کے ہیں۔ عشق ایک ہمہ گیر اصطلاح ہے۔ کہیں یہ نشہ ہے، کہیں جسمانی اور روحانی بیماریوں کا علاج، کہیں سب سے زیادہ انہماک پیدا کرنے والا شغل ہے، کہیں بیکاروں کا مشغلہ اور کہیں یہ حقیقی ہے اور کہیں مجازی۔ تاہم یہ انسان کے لیے انتہائی اہم جذبہ ہے۔ جس کے بغیر زندگی گزارنا محال ہے۔
ندافاضلی کا ایک خوبصورت شعر یوں ہے۔
٫٫ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے ،،
٫٫عشق کیجے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے،،
ایک صوفی عشق کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں، "عشق اُس آگ کا نام ہے جو عاشقوں کے دل اور سینے میں جلتی رہتی ہے اور خدا کے سوا جو کچھ ہے اُسے جلا کر خاکستر کر دیتی ہے” ۔بالکل یہی کیفیت ایک انسان کی دوسرے انسان کے لیے بھی بیدار ہو سکتی ہے ۔جسے صوفیانہ اصطلاح میں عشق مجازی کہتے ہیں۔
اکبر الہ آبادی لکھتے ہیں ۔
٫٫عشق نازک مزاج ہے بے حد
عقل کا بوجھ اٹھا نہیں سکتا ،،
عشق ، پیار اور محبت دونوں سے الگ ایک خوبصورت ترین جزبہ ہے، اور اِس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ موحد ہوتا ہے، یعنی یہ جزبہ عمر بھر میں کسی ایک ہی ہستی کے لیے بیدار ہوتا ہے، یہ کبھی بھی ایک سے زیادہ لوگوں کے لیے نہیں ہوسکتا، البتہ اِس کی دو قسمیں ہیں۔
مسلمانوں کے ہاں گزشتہ کئی صدیوں سے عشق، عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی کی اصطلاحوں میں تقسیم ہو کر استعمال ہو رہا ہے۔ عشقِ مجازی سے مراد انسانوں کی باہمی بے لوث محبت مراد لی جاتی ہے ۔لیکن موجودہ دور میں عشق کے معنی غلط تصور کیے جاتے ہیں ۔اور ہر دوسرے انسان سے سے عشق کے دعوے کیے جاتے ہیں ۔ہمارے نوجوان طبقے نے عشق کے معنی یکسر غلط سمجھے ہیں۔اور آئے دن ان کے سر کسی نہ کسی کے عشق کا رنگ چڑھا ہوتا ہے۔ دراصل عشق ایک خوبصورت جذبہ ہے جو تمام عمر ایک ہی شخص سے منسلک رہتا ہے۔
٫٫یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے ،،
اشخاص اور اشیاء کی محبت سے ماورا خدا کا عشق ’’عشقِ حقیقی‘‘ کہلاتا ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے بچپن سے ہی عشق کا جذبہ دے کر پیدا کیا ہے۔ انسان کا یہ عشق ساری عمر دائرہ در دائرہ آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور کہیں رُکتا نہیں۔اسی عشق کی گواہی قرآن مجید ’’الا بذکر اللہ تطمئن القلوب‘‘ کہہ کر دیتا ہے۔
Urdu columnist Usman Ali favourite sufi song
اگر انسان بچپن ہی میں اللہ تعالیٰ کے عشق کی طرف راغب ہوتو وہ ’’ولی اللہ ‘‘کہلاتا ہے۔ جو انسان عشق کے مجازی دائروں کی تکمیل کرتا ہوا عشق حقیقی کے منصب پر فائز ہوتا ہے وہ عشق حقیقی کی ماہیت کو جیسا سمجھتا ہے اور جس سطح پر وہ پہنچ جاتا ہے وہاں تک غالباً ولی بھی نہیں پہنچ پاتا چونکہ عشق کے ان تجربوں سے نہیں گزر پایا جہاں سے ایک سچا عاشق، عشقِ مجازی کے دائروں کی تکمیل کرتے ہوئے گزرا ہے۔ اس لیے ولی کا عشق قدرے ناپختہ رہتا ہے۔ لہٰذا عشق مجازی کو عشق حقیقی کی سیڑھی کہا جاتا ہے۔
ایک بار جب حضرت علامہ اقبالؒ سے سید نذیر نیازی نے عشق کے بارے میں استفسار کیا تو آپ نے فرمایا:’’عشق ہی جوہر ہے زندگی کا۔ عشق ہی ہمارے جملہ مسائل کا حل اور مداوا ہے۔ یہ ہمارا باہمی تعلق ہی تو ہے جس کی بدولت ہم ایک دوسرے سے ربط و ضبط اور اتحاد و اشتراک پیدا کرتے ہیں۔ انسان کا انسان سے میل جول، ایک دوسرے کی الفت اور محبت و مروّت روزمرہ کی بات ہے اور یہی بات ہے جس سے زندگی کا کارخانہ چل رہا ہے۔ ہمارا کوئی جذبہ اتنا مؤثر نہیں جتنا عشق ہے۔ عشق کی خاطر انسان بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ عشق ہی ہر شے اور وجود کا سہارا اور عشق ہی بطور ایک اصول کائنات میں کار فرما ہے‘‘۔
٫٫ عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں،