”بھٹو ، ضیا، نواز کے بعد عمران بھی امریکہ کا ٹارگٹ“
پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان بھی دونوں وزراءاعظم کی طرح امریکہ کو للکارتے ہوئے اپنوں اور بیگانوں کے ہاتھوں جال میں پھنستے نظر آ رہے ہیں۔
20 سالہ جدوجہد کے بعد ساڑھے تین سال قبل عمران خان کو وفاق اور دو صوبوں پنجاب اور کے پی کے میں حکومتیں بنانے کا موقع دیا گیا وزرات عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد عمران خان نے سابقہ ادوار(ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کے وزراءکو اپنے ساتھ شامل وفاق اور صوبوں میں حکومتیں چلانے کی کوشش کی لیکن اس میں وہ نا تجربہ کاری کی بنا پر مہنگائی بےروز گاری اور دیگر ملکی معالات کو اپنی ہٹ دھرمی اور بیورو کریسی کی عد م تعاون کے باعث چلانے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔
عوام عمران خان سے تبدیلی کی امید رکھتے تھے کہ شاید عمران خان مہنگائی اور بےروز گاری کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو جاہیں لیکن ایسا نہیں ہو سکا مجھ سمیت پی ٹی آئی کے رہنما اور ورکروں کے علاوہ عوام کوئی ریلیف نہ ملنے پر عمران خان کے خلاف ہے۔
عمران خان کی ساڑھے تین سال کے دوران حکومت اور اس کے مخالفین ایک دوسرے کو آڑھے ہاتھوں لیتے رہے ہیں لیکن عدم اعتماد آنے کے ساتھ ہی ایک امریکی دہمکی آمیز خط آتے ہی عمران خان کے خلاف لڑائی کے تمام مخاذ کھل گئے ہیں عمران خان کو بعد بھٹو اور میاں نواز شریف کی طرح عوامی اور اپنے ساتھیوں پر بڑا ناز ہے لیکن حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے عوام چڑھتے سورج کی پوجہ کرتے ہیں یونہی عمران خان پر کوئی مصیبت آئے گی کچھ بھاگ گئے ہیں۔
کچھ بھاگ کی تیاری کر رہے ہیں قارین میں سابقہ ادوار کے تاریخی حوالے دینا چاہتا ہوں اگر میں غلط میں کہوں تو مجھے معاف کر دینا پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے جب امریکہ کے احکامات ماننے سے انکار کرتے ہوئے الگ آزاد خارجہ پالیسی بنانے کے لئے اسلامی ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے کرنے اور پاکستا ن کو امریکی کالونی بنانے میں رکاوٹ ڈالی تو پاکستان میں بھٹو کے خلاف 9 ستاروں پر مشتمل ایک سیاسی اور دینی اتحاد پاکستان قومی اتحاد(پی این اے) کی شکل میں سامنے آیا جس نے بھٹو کے ملک اور قوم کے لئے گئے اچھے اقدامات جن میں قادیانیوں کو کافر قرار دینا،شراب بند کرنا اور جمعہ کی چھٹی کو لازمی قراردینے کے تمام فیصلوں کو یکسر نظر اندازاور پس پشت ڈال کر بھٹو کی حکومت کے خلاف امریکی ایما پر بھرپور تحریک چلانے کا اعلان کر دیا۔
پاکستان قومی اتحاد کی قیادت نواب زادہ نصر اللہ خان،ائر مارشل خان ،مولانا مفتی محمود ،مولانا شاہ احمد نورانی عبدالولی خان،میر غوث بخش بزنجو،میر خیر بخش مری،سردارعطا اللہ مینگل اور پروفیسر عبدالغفورسمیت دیگر جماعتوں کے قاہدین کررہے تھے۔
اس تحریک میں بھٹو کے اپنے تمام قریبی اور چوڑی کھانے والے وزرائجن میں جے اے رحیم،ممتاز بھٹو،عبد الخیفظ پیرزادہ اور ڈاکٹر مبشر حسن سمیت سب نے ہاتھ کھڑے کر دیئے اور بھٹو اکیلا امریکہ کے خلاف جنگ لڑتے اور اپنے مخالفین سے بدلہ لئے بغیر تختہ دار لٹکا دیئے گئے۔
اس کے بعد میاں نواز شریف نے بھی امریکہ کا حکم ماننے سے انکار کرتے ہوئے بھارت مخالف 6 دہماکے کر ڈالے اس وقت میاں نواز شریف کا خلاف تحریک چلانے والوں میں یہی سیاسی اور دینی رہنما نواب زادہ نصر اللہ خان،مولانا فضل الرحمن،مولانا شاہ احمد نورانی،عبدالولی خاناور دیگر چاروں صوبوں سے مشرف کا ساتھ دیا تھا۔
لیکن میاں نواز شریف کی خوش قسمتی ان کی جان اللہ تعالی کے بعد سعودیعرب ان کے کام آئے آج پھر وہی حالات نہ بن جاہیں امریکی دہمکی کو ڈرامہ اور اقتدار بچانے کا نام دیا جا رہا ہے۔
اس لئے امریکی دہمکی آمیز خط کی کوئی مخالفت کرنے کی جرات نہیں کر سکتا اسے ایک ڈپلومیٹ کے معمولی الفاظ کا نام دے کر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے لیکن اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف بلکہ پی ڈی ایم ہی خود ہیں اور آنے والے چند دنوں میں وزارت عظمیٰ کا منصب سمبھالنے جا رہے ہیں عمران خان کی طرف سے خط دکھانے کے بعد بن دیکھے اور بن پڑھے اور اپنے نفعاور نقصان کی پرواہ کیے بغیر یہ بیان دیا ہے۔
کہ عمران خان اگر یہ خط سچ ہے تو میں تمہارے ساتھ ہوں ا س پرقوم شہباز شریف کو سلوٹ کرتی ہے کہ انہوں نے ملک کے وسیع تر مفاد کی خاطر اپنا سب کچھ داو پر لگا کر ایک سچے محب وطن ہونے کا ثبوت دیا ہے اس لئے میاں شہباز شریف اس قسم کے دہمکی آمیز خطاط سے بخوبی آگا ہ ہیں جو میاں نواز شریف کو بھی دہماکے کرنے کے بعد ملتے رہے ہیں۔
اور جس کی پاداش میں انہیں 10 سال کے لئے جلا وطن کر دیا گیا تھا بد قسمتی کی بات ہے کہ میاں نواز شریف کے خلاف چلنے والی اس تحریک میں وزیراعظم خود بھی سر فہرست تھے اور (ن) لیگ کی حکومت ہٹانے کے لئے فوج سے مداخلت کی اپیل کی جاتی تھی گو اس وقت در پردہ فوج سے مداخلت کے لئے کہا جا رہا ہے۔
اس لئے کہ عمران خان نے جس طرح میں پہلے تحریر کر چکا ہوں بیک وقت روس کا دورہ کرنے کے علاوہ چین،ایران، ترکی اور پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک کو بھٹو کی طرح ایک پلیٹ پر اکھٹا کرکے او آئی سی کے اجلاس میں امریکی مندوب کو بلا کر کیا دکھا یا گیا ہے کہ میں تمام اسلامی ممالک کی قیادت کرنے جا رہا ہوں۔
جس طرح بھٹو نے تمام اسلامی ممالک کے سربراہان کو پاکستا ن بلا کر امریکہ سے آزادی حاصل کرنے کے لئے اسلامی بنک بنانے کا فیصلہ کیا تھا عمران خان نے بھی اسی راستے پر چلتے ہوئے پاکستان کی آزاد پالیسی بنانے کی کوشش کی ہے۔
جو سابقہ 70 سال میں نہیں سکا پاکستان کو امریکی کالونی نہ بنانے کا نعرہ تو لگتا ہے لیکن نعرہ والوں کی جائیداہیں ،بنک بیلنس،بچے اور ریٹائرمنٹ کے بعد آخری ارام گاہ امریکہ ہے اس صورت میں پاکستان کیسے امریکی کالونی نہیں بنے گا اور اگر آج امریکہ اپنی ویزہ پالیسی پاکستان کے لئے آسان کر دے۔
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
وزیراعظم صاحب امریکی کالونی کے مخالفین سب سے پہلے ویزہ لینے چلے جاہیں گے اور جن میں آپ کے بیشتر ساتھی ہوں گے اور پلٹ کر آپ کی طرف نہیں دیکھیں گے یوں دکھائی دیتا ہے کہ جب سے عمران خان نے طالبان کی حمایتاور ان کا ساتھ دیتے ہوئے افغانستان سے امریکہ اور نیٹو فورسز کا انخلا کرایا ہے۔
اس دن سے حکومت کے اندر بیٹھے امریکی مفادات کے حامیوں نے عمران خان کو چھوڑنے فیصلہ کر لیا تھا پھر پاکستان میں امریکی ناظم امور خارجہ کی پاکستان کے مختلف سیاست دانوں مولانا فضل الرحمن ،مریم نواز ،بلاول بھٹوسمیت دیگر رہنماو¿ں سے ملاقاتیں کرنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔
اس لئے کہ عوام کو عمران خان حکومت نے مہنگائی اور بےروز گاری کی چکی میں پس دیا ہے اور دوسرے اپنے مخالفین کو بھی ہر وقت آڑھے ہاتھوں لیتے رہے ہیں یہی نہیں عمران خان ”اپنوں“کے معاملات میں مداخلت کرنے سے گریز کرنے کی بجائے ان میں بگاڑ پیداکردیتے تھے جس کی وجہ سے اپوزیشن کو عدم اعتماد لانے کا حوصلہ ملا اور انہیں عمران خان کو لانے والوں کو کہنا پڑا کہ جو آپ کا نہیں بن سکا وہ ملک و قوم کا کیا بنے گا جس کے بعد یہ میچ شروع ہوا ہے اس لئے کہ عمران خان پاک فوج اور اپنے ایک پیچ پر ہونے کے برملا اعلان کے باوجود ”اپنوں“سے چھیڑ خانی کرتے تھے ”کہ ابھی ہے وقت آنے پر دیکھیں گے“کے الفاظ پر اکتفا کیا جاتا تھا۔
پھر عمران خان کا یہ اعلان ہے کہ آخری بال تک لڑوں گا ضرور لڑنا چاہیے یہ ان کا حق ہے لیکن کوئی بیرونی امداد آنے والی نہیں ہے بظاہر روس اور چین آپ کے ساتھ ہوں گے ”صڑف اپنوں کی مدد کام آئے گی وہی سیاسی ڈور الجھنے اور ملک کو مزید سنگین صورت حال سے نکال سکتے ہیں کل بھٹو کے خلاف مولانا مفتی محمود،مولاناشاہ احمد نورانیاور ولی خان تحریک چلانے والوں میں پیش پیش تھے آج ان کے بیٹے مولانافضل الرحمن۔مولانا انس نورانی اور اسفند ولی عمران خان کے خلاف تحریک میں شامل ہو کر پاکستان کی سیاسی تاریخ کو ایک بار پھر دہرا دیا ہے۔
اس وقت پاکستان میں جو کش مکش اور کھینچا تانی ہو رہی ہے اس کا موجد اگر عمران خان کو نہ کہا جائے تو غلط ہو گا اس لئے کہ عمران خان کی جان کو امریکی دھمکی آمیز خط کے بعد خطرہ بھی لا حق ہو گیا ہے اس صورت میں قومی سلامتی کمیٹی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ وزیراعظم کی سخت حفاظتی اقدامات کریں اور دوسرے ان کے ساتھیوں کے لئے یہ امتخان کا وقت ہے کہ اس وقت کون کون عمران خان کے ساتھ کھڑا ہے قوم دیکھے گی اس لئے کہ جب بھٹو اس قسم کی صورت حال میں مبتلا ہو ئے تھے تو صرف ان کی فیملی اور چند ورکر ان کے ساتھ آخری وقت تک کھڑے رہے قارین آپ کو ایک اور پتے کی بات بتاتا چلوں کہ امریکہ اپنوں سے غداری کرنے والوں کو بھی نہیں چھوڑتا بھٹو کو تختہ دار پر لٹکانے کے بعد امریکہ نے ضیاالحق کی طرف سے ایٹمی پروگرام رول بیک نہ کرنے پر اپنے سفیر رابن فیل جہاز میں سوار تمام ساتھیوں کو بھی معاف نہیں کیا تھا اس لئے کہ ضیاالحق بھی پاکستان کو اٹیمی قوت اور اسلام کا قلعہ بنانا چاہتے تھے۔
جو امریکہ کو قیمت پر قابل قبول نہیں تھا اب عمران خان بھی اسی ڈگر پر چل پڑے ہیں موجودہ صورت حال کچھ اس طرف جاتی دکھائی دے رہی ہے کہ مولانا فضل الرحمن جن کی امریکہ داخلے پر پابندی ہے بڑے زور وشور سے امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے عمران خان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اس لئے کہ مولانا کی جماعت کے نزدیک پاکستا ن ہو یاکشمیر دونوں کے معالات سے ان کوئی لینا دینا نہیں ان کی جماعت کا پاکستان بنانے میں کوئی کردار نہیں رہا تو کشمیر کی آزادی کی انہیں کیا سروکا ر حالانکہ مولانا دو مرتبہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں اور کروڑوں فنڈز حاصل کرنے کے باوجود کشمیر کی آزادی کے لئے کو ئی کارنامہ سر انجام نہیں دیا۔
ادھر امریکی خط کو ڈرامہ کہنے والے کیا بھارت کو امریکہ کی طرف سے کھلم کھلا ملنے والی دھمکی کو بھی ڈرامہ کہیں گے تو پھر عوام ان کی ذہنیت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں مسلہ اس وقت عمران خان حکومت کے جانے یا نہ جانے کا نہیں مسلہ اس وقت ملک کی بقااور سلامتی کا ہے اس دھمکی آ میز خط کو مذاق میں لیا گیا تو اس کے نتائج ملک کے لئے خطرناک ہو سکتے ہیںعمران خان کی طرف سے انے خلاف عدم اعتماد کو ناکام بناے کیلئے قومی اسمبلی کی تحلیل سے ملک میں آئینی بحران پیدا ہو گیا ہے جو میری تحریر کا ثبوت ہے کہ پہلا امریکی وار کامیاب ہو گیاہے۔
جو کہ بھٹو اور نوازشریف پر بھی ہوا تھا یعنی کہ عمران خان کو گھر بھیجنا امریکہ اپنا یہ ٹارگٹ صرف ایک ڈپلومیٹ کے ذریعے حاصل کر لیا ہے بہتری اسی میں ہے کہ ملک کی قومی سلامتی کے لئے مقتدر حلقے ائندہ انتخابات تک اپنی زیر نگرانی قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کو ذمہ داری سونپ دیں تا کہ ملک میں جاری سیاسی درجہ حرارت میں کوئی کمی آ سکے اس لئے کہ وفاق کے بعد پنجاب میں بھی 6اپریل کو ہنگامہ آرائی کے بعد پنجاب اسمبلی بھی تحلیل ہونے جارہی ہے ۔
After Bhutto Zia Nawaz Imran Khan is also US target Video