دشمن ملک بھارت کی چال اورہماری غفلت
پنجاب کے ضلع قصورشہر میں بستی اسلام پورہ میں ‘میں نے آنکھ کھولی۔ بستی کے مشرق کی جانب ریلوے لائن تھی جوکہ بھارت کے شہر فیروزپور اورکھیم کرن کوملاتی تھی۔
غالباً 1954ءمیں بھارت کی طرف سے آنے والے تباہ کن سیلاب سے ریلوے لائن ٹوٹ گئی اس کے بعد بذریعہ ٹرین قصورکا رابطہ بھارت ہمیشہ کےلئے توڑ دیاگیا۔ میری عمرغالباً چھ‘سات سال کی تھی صبح و سویرے اٹھتے تو دیکھتے کہ بھارت سے ہجرت کرکے گنڈا سنگھ والا بارڈرکے راستے پاکستان میں داخل ہونیوالے مہاجرین جنہیں ہم عام الفاظ میں ”بہاریے“ کہتے تھے۔
وہ درجنوں کی تعداد میں اپنے اہلخانہ کے ہمراہ گلی سے گزرتے تھے اور سیدھے قصور ریلوے اسٹیشن سے ٹرین پر بیٹھ کر رائیونڈ اوروہاں سے کراچی جاتے تھے۔
‘بہاری مہاجرین کی آمدکا یہ سلسلہ تقریباً کوئی چھ‘سات سال جاری رہا۔ ہم یہ سمجھتے تھے کہ یہ مظلوم بھارت کے ظلم کے ستائے ہوئے آئندہ والی زندگی سکون سے گزارنے کےلئے پاکستان کا رُخ کررہے ہیں۔
یہ وہ وقت تھاجب کراچی کو روشنیوں کا شہرکہاجاتاتھا۔ کہتے ہیں کہ سانپ ہمیشہ انسان کا دشمن ہوتاہے اس کا روپ کوئی بھی ہو ‘اصل میں بھارت نے قصور‘ گنڈا سنگھ بارڈر کے ذریعے جن عناصر کو پاکستان کی طرف دھکیلا ان میں اکثریت اس کے ایجنٹوں کی تھی جنہوں نے ایم کیوایم کا روپ دھارکر روشنیوں کے شہر کراچی کا نہ صرف امن تباہ کیا۔
قتل و غارت کا بازار گرم کیاکراچی شہر جس کوترقی کے میدان میں پاکستان کی کنجی سمجھاجاتاتھا‘بڑے بڑے صنعتکاروں کو ہراساں کرکے پاکستان چھوڑنے پرمجبورکیا۔
بھارت کے ان ایجنٹوں کی وجہ سے پاکستان کی صنعت ترقی کی بجائے آج تک تنزلی کی طرف گامزن ہے ۔اگر اس وقت ہمارے حکمران اور خفیہ ادارے ہوش کے ناخن لیتے اور ان عناصرکاپاکستان میں داخلہ بند کرتے تو نہ بھارتی حکمرانوں اپنا کھیل‘کھیلتے اور پاکستان حقیقت میں ایشین ٹائیگرہوتا۔
اُس کے بعد بھارتی حکمران ہماری نوجوان نسل کو تباہ کرنے کےلئے اب ایک اور گھناﺅنا کھیل‘کھیل رہاہے ۔ افسوس کہ ہمار ے حکمران اور خفیہ اداروں کو بھارت کی اس چال کا علم ہونے کے باوجود وہ اس کو روکنے کی بجائے گہری نیندسوئے ہوئے ہیں۔
پاکستا ن میں اس وقت ایک ہزار سے زائد ایلوپیتھک ادویات بنانے والی فیکٹریاں پاکستان میں کام کررہی ہیں کوئی دس فیصد کے قریب غیرملکی باقی لوکل ہیں۔ ادویات کی تیاری کےلئے خام مال و کثیرحصہ بھارت سے آتاہے اس خام مال میں مختلف امراض کے علاج کے علاوہ نشہ آور ادویات جس میں فنیرامن(Antivil)انجیکشن‘ ڈیکس میتھارفن سیرپ‘ بارزری پام‘ اپرازولام‘ڈیزی پام گولیاں وغیرہ یہ وہ خام مال ہے جس پر بھارتی حکومت اپنے صنعتکاروں کو بہت زیادہ سبسڈی دیکر سستے داموں پاکستان کے ادویات ساز اداروں کو فراہم کرتا ہے۔
یہ ادویات زیادہ وہ عناصر استعمال کرتے ہیں جو ہیروئن یاشراب پیتے ہیں اور ان ادویات کی فروخت پاکستان میں بغیر کسی ریکارڈ کے وسیع پیمانے پر ہورہی ہے اور اس بہتی گنگامیں ہمارے ملکی ادویات ساز ادارے اپنا حصہ ڈال کر نوجوان نسل کو تباہ کررہے ہیں۔
آج سے چار دہائی قبل شراب کی بوتل اور ہیروئن کی پڑی خریدنے کےلئے پاپڑبیلنے پڑتے تھے اور اگر یہ افراد پولیس کے ہتھے چڑھ جاتے تو ضلالت علیحدہ مول لیناپڑتی تھی۔ شراب اور ہیروئن کا نشہ پورا کرنے کےلئے ہماری حکومت (محکمہ صحت) نے یہ بیڑہ خوداٹھالیا اب یہ متبادل رجسٹر نشہ ہرمیڈیکل سٹورز پرکھلے عام فروخت ہورہاہے اور اب یہ مافیا اتنا طاقتورہوچکا ہے کہ ملک کا کوئی بھی ادارہ اس پر ہاتھ ڈالنا چاہے تو نہیں ڈال سکتا۔
ملکی ادویات سازوں کے مالکان ہر ماہ کروڑوں روپے بغیر کسی ریکارڈ کے کمارہے ہیں اسی وجہ سے پاکستان میں ادویات تیار کرنیوالے کارخانوں کی تعدادمیں روزبروز اضافہ ہورہاہے۔
اگر ماضی کی طرح اب بھی ہمارے حکمران او ر خفیہ ادارے بھارتی حکمرانوں کے چال کو سمجھنے کی بجائے آنکھیں بند کرکے نوجوان نسل کی تباہی کا تماشہ دیکھتے رہے اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہ کیا تو پھر دشمن ممالک نے جو آج مصنوعی طریقے سے ہمارے ملک میں سیلاب سے تباہ کاریاں کی ہیں اس کا ازالہ تو شاید ہم کرلیں مگر اپنی آنکھوں کے سامنے ہونیوالی نوجوان نسل کی تباہ کاری کا ازالہ شایدساری عمرنہ کرسکیں۔
ہر شخص اپنی بساط کے مطابق کرپشن کی گنگا میں نہا رہا ہے
بھارتی حکمرانوں کو ہمارا وجود شروع دن سے ہی برداشت نہیں ہورہا۔ اور وہ ہمارے وجود کو ختم کرنے کےلئے ہرروز نئی چال چلتا رہتاہے اگر خدانخواستہ دشمن کی یہ چال کامیاب ہوگئی تو پھر ہمارے ایٹمی ہتھیار‘ فوج وغیرہ دشمن کے ہاتھوں ہماری تباہی کا راستہ روکنے میں ہمارے کام آسکے گی اوراکھنٹربھارت کا منصوبہ کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتے گا۔
جس طرح پاکستان کو دولخت کرنے کے بھارتی منصوبے کو کامیاب ہونے سے ہم کسی صورت روک نہیں سکےں تھے۔