یہ رشتہ ہمیشہ رہے گا
روحانیت کا موضوع اتنا وسیع ہے کہ لکھنے والے اپنے اپنے منفرد انداز میں اس پر لکھتے آ رہے ہیں۔ ہر ایک کی تعریف دوسرے سے الگ ہوتی ہے۔ لیکن مقصد ایک ہی ہے یعنی ہمیشہ کا رشتہ، ہمیشہ کا ساتھ، ہمیشہ کا سکونِ قلب و روح۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے
جب انسان میں سچی طلب اور اخلاص ہو۔ روحانیت کی بنیادی شرط سچ اور اخلاص ہے۔ اس کے بغیر روحانیت ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی ہے۔ اس رشے یعنی روحانیت کے کچھ چیدہ چیدہ حصوں کے بارے میں بھی تذکرہ کرتے ہیں۔
یادوں کا رشتہ:اچھی یادوں کا رشتہ بھی اچھا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ کسی کی یادوں کے سہارے پوری زندگی گزار دیتے ہیں۔ کچھ زیادہ یاد کرتے ہیں کچھ کم یاد کرتے ہیں۔
لیکن کرتے ضرور ہیں۔ یہی اخلاص ہے۔ یہی وفا ہے۔ یہ اللہ کی حکمت ہے اور اس کے راز ہیں۔ بعض کو انسان یاد کرتا ہے اوراس کو پاس پا لیتا ہے اور بعض کی بس یادیں نصیب ہوتی ہیں۔
دونوں اس زندگی کے رنگ ہیں۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ انسان جس کی یادوں میں رہتا ہے وہ ایک دن حقیقت میں ضرور مل جانا ہے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کی یاد میں رہ کر کچھ مانگے اور اس کو انکار ہو۔ وقت طے نہیں کیاجا سکتا لیکن چاہت طے کی جا سکتی ہے۔
یعنی جو چاہت ہے اگر وہ جائز ہے اور اخلاص پر مبنی، تب وہ چاہت ضروری پوری ہو گی۔ شرط یہ ہے کہ اللہ کے دیے ہوئے قانون پر ہر ممکن حد تک عملِ پیرا رہے۔ انسان کمزور ہے اس لیئے ہر ممکن حد کہا۔ وہ کبھی بھی تکمیل کے درجے تک نہیں پہنچ سکتا۔
کیونکہ وہاں تک ایک ہی ہستی پہنچ سکی ہیں اور وہ ہیں آمنہ کے لال ﷺ۔ اسی لیے آپ ہی کی ہستی ہمارے لیے سب کچھ ہیں۔
کوئی کسی انسان کو بہت یاد کرتا ہے، اس میں یاد کرنے والے کا بھی کمال ہے اور یاد آنے والے کا بھی ۔ لیکن یہ رب کے فیصلے ہیں، یہ تقدیر ہے۔ کائنات میں کروڑوں انسان ہونے کے باوجود اور ہمارے اردگرد سینکڑوں انسان ہونے کے باوجود بھی ہم کسی ایک انسان کو خاص درجہ دے دیتے ہیں۔
وہی ہماری یادوں کا محور ہوتاہے۔ وہ محبوب بھی ہو سکتا ہے، مرشد بھی، وہ کوئی بھی ہو ہوتا خاص ہی ہے۔ اس میں فاصلے بھی ہو سکتے ہیں، اس میں قرابت بھی ہو سکتی ہے۔ یاد کرنے والا شخص چاہتاہے کہ جس کو یاد کیا جا رہا ہے وہ اس کے قریب تر رہے، اور یاد آنے والا شخص بھی یہی چاہتا ہے۔
کچھ کیسز میں تقدیر دونوں کو قریب کردیتی ہے اور کچھ میں دور۔ لیکن روحانیت کا سفر یہ ہے کہ جسمانی قرابت یا دوری اس خالص رشتے پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ یہ مکمل طور پر تقدیر کا فیصلہ ہے۔
کیونکہ کسی ایک کو یاد کرنے والے کافی ہو سکتے ہیں اور کسی کو یاد کرنے والا کوئی بھی نہیں ہو سکتا، یہ سب رازہی راز ہیں۔ توان کو رازوں والا ہی بہتر جانے۔
باتوں کا رشتہ: کچھ لوگوں کی باتیں ہمارے لیے نمونہ ہوتی ہیں۔ کچھ لوگوں کی باتیں سننے کو ہر وقت دل کرتا ہے۔ لیکن بہت زیادہ بات چیت اور ہر وقت کی بات چیت رشتوں کو کمزور کر دیتی ہیں۔
کیونکہ انسان جب زیادہ تر وقت اپنے پیارے کے ساتھ باتوں میں گزارنے کا خواہاں ہوتا ہے، تو باتوں باتوں میں دونوں کی کوئی نہ کوئی بات ایک دوسرے کو اشتعال دلا سکتی ہے۔
اچھی بات وہ ہے جو کم ہو اور ہمیشہ رہنے والے تعلقات کو استوار کرے۔ ہمارے جاننے والوں میں ایک دوست ہیں، بہت اچھے ہیں۔ اور شاید بات بھی اخلاص سے کرتے کیونکہ دل کا حال، باطن اللہ جانتا، لیکن وہ کافی لوگوں سے بہتر ہیں۔
وہ جب بات کرتے ہیں تو نہیں دیکھتے کہ کوئی بندہ جلدی میںہے ، کسی کاضروری کام ہو سکتا ہے،ایک منٹ کی بات کو گھنٹوں طول دے دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مجھ سمیت کافی لوگ ان سے دور ہونا شروع ہو گئے۔ اس دور میں وقت کی بڑی اہمیت ہے۔
ہر انسان کی کچھ ذمہ داریاں اور سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ کوئی بندہ اتنا زیادہ وقت کسی ایسی بات کے لیے نہیں ضائع کر سکتا جو صرف ایک منٹ میں کی جا سکے ۔
کوئی انسان اس کو منٹوں گھنٹوں تک طول دے ،یہ بھی کوئی گوارا نہیں کر سکتا۔ وہ شاید ایک دن تو مجبوری میں اور نا چاہتے ہوئے آپ کو وقت دے دے لیکن آنے والے وقتوں میں وہ ضرور نہ صرف آپ سے اجتناب کرے گا بلکہ دور بھاگے گا۔ اس لیے میانہ روی والا معاملہ اختیار کرنا چاہیے ۔
لوگوں سے ان کی طبیعت کے مطابق بات کرنا حکمت عملی ہے جو اچھے تعلقات کی ضامن ہے۔ مختصر بات کریںاور اچھا پیغام دیں۔اس صورت میں رشتہ ہمیشہ کے لیئے قائم رہ سکتا ہے۔
طویل بات اوربلاوجہ تفصیل میں جانا انسان کو نہ صرف پیغام سے دور کر دیتا ہے بلکہ توجہ میں خلل پیدا ہوتا ہے اور ذہنی انتشار بھی کیونکہ سننا بہت مشکل ہے اور زیادہ سننا تو اور بھی زیادہ مشکل ہے خاص کر جب غیر ضروری اورکسی کی فطرت ومطابقت کے خلاف بولا جائے اور زیادہ بولا جائے۔
بہت زیادہ بات چیت مضبوط رشتے کی علامت نہیں اور بہت کم بات چیت کمزور رشتے پر دلالت نہیں کرتی۔ بات اخلاص کی ہے اور مخلص رشتے کی۔
کچھ لوگ اپنا وقت سوچنے اور لکھنے پر صرف کرتے ہیں اور مختلف مشاہدات، مطالعے اور افکار کی بنیاد پرمختلف مضامین قلمبند کرتے ہیں۔ ان کی کتابیں باتیں کرتی ہیں۔
اچھی بات کسی کی زندگی کے بند دریچے کھول دیتی ہے۔ بابا جی واصف علی واصف کی خوبصورت کوٹیشن ہے کی ‘پیغمبروں کی بات بھی باتوں کی پیغمبر ہوتی ہے’۔
اسی طرح ہر انسان کسی کی باتوں سے ضرور متائثر ہے اور اس کی زندگی پر اس کا بہت گہرا اثر ہوتاہے۔ باتوں میں سب سے عظیم باتیں حضور ﷺ کی ہیں جن کو احادیث نبوی کہاجاتا ہے۔ یعنی آپ کی باتیں قانون ہیں۔ جیسے رب کا فرمان قانون ہے ویسے ہی حضور کا فرمان بھی قانون۔
اسی طرح ہر دور میں کوئی بزرگ، صوفی، دانشو ر آتا ہے اور اس کی باتیں زمانے کو ہلاکر جھنجوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ وہ اصل میں اس دنیا کا بندہ نہیں ہوتا۔ اس کا مقصد بس اصلاح و فکر معاشرہ ہوتا ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ ہر انسان ضرور کسی ایسے شخص کی باتوں کا اسیر ہے۔
اس کی باتوں کے سحر میں گرفتار ہے۔ روحانیت بھی یہی ہے جڑے رہنا۔ تو یہ باتوں کا تعلق بھی انسان کو دوسروں انسانوں سے جوڑے رکھتاہے۔ صاحبِ کتاب ہم میں موجود ہویا نہ ہودونوں صورتوں میں اس کی باتیں، اس کے ارشادات، تخیلات، ہمیں اپنے حصار میں گھیرے رکھتے ہیں۔جس سے ہم فیض پاتے ہیں ، رہنمائی، رستہ اور سکون۔ یہی روحانیت ہے۔