کالم و مضامین

غازی شہید لیفٹیننٹ شہاب حامد باجوہ

از قلم : طاہر دُرانی

سرزمین پاک کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ زندہ لوگوں کی زمین ہے ، اس عرضِ پاک کی آبیاری میں شہیدوں کا مقدس لہو شامل ہے۔

اس دھرتی کے جوانوں کا جذبہ لافانی اور قوت ِ ایمانی سے بھر پور ہے ۔ مادر وطن کا یہ بھی اعجاز ہے کہ اس پر ایسے سپوت بھی ہیں جو غازی اور شہید کے عظیم مرتبہ پر فائض ہوئے اور ہمیشہ کے لیئے زندہ و جاوید ہوگئے۔

وطن کے محافظ یہ جوان کون ہیں ؟ٹھنڈی میٹھی نیند انہیں بھی ستاتی ہے ، تھکن سے جسم ان کے بھی چُور ہوتے ہیں ، نرم گرم بستر کی ضرورت انہیں بھی ہوتی ایک لمحے کے لیئے صرف ایک لمحے کے لیئے سوچیں ، اگر آرام کی غرض سے یہ بھی سو گئے تو کیا حال ہوگا وطن عزیز کا وطن عزیز کی عزت و سالمیت کا ؟ ہمارے یہ جوان گرمی سردی کی پراہ کیئے بغیر اپنے فرائض کو فرض عین سمجھتے ہوئے بخوبی سر انجام دیتے ہیں اور ہم سکون کی نیند سوتے ہیں۔

مثل مشہور ہے یہ جو بے فکری ہے اس کے پیچھے وردی ہے ۔اگر آج ہمارا ملک فلسطین ، اعراق شام سے مختلف ہے تواس کی وجہ بھی جوانوں کے جذبہ شہادت اور وطن سے بے پناہ محبت ہے ظالموں کے ناپاک اثر سے قوموں کے اخلاق تباہ وبرباد ہوتے ہیں، تو ایسی حالت میں جنگ جائز ہی نہیں،بلکہ فرض ہوجاتی ہے۔

اس وقت انسانیت کی سب سے بڑی خدمت یہی ہوتی ہے کہ ان ظالم بھیڑیوں کے خون سے صفحہ ہستی کے سینے کو سرخ کردیا جائے اور ان شر پسندوں کے شر سے اللہ کے مظلوم وبے کس بندوں کو نجات دلائی جائے، جو شیطان کی امت بن کر اولادِ آدم پر اخلاقی، روحانی اور مادی تباہی کی مصیبتیں نازل کرتے ہیں۔

وہ لوگ انسان نہیں؛ بلکہ انسانوں کی شکل وصورت میں درندے اورانسانیت کے حقیقی دشمن ہوتے ہیں، جن کے ساتھ اصلی ہمدردی یہی ہے کہ ان کو صفحہ ہستی سے ہمیشہ کے لیئے مٹادیا جائے، ایسے وقت میں ہر سچے، انسانیت کے ہمدرد کا اولین فرض ہے کہ ایسے لوگوں کے خلاف عم جہاد اٹھائے اور سرخرو لوٹے ۔

شہید کا رتبہ ہر انسان کے حصے میں نہیں آتااس پاک اور عظیم المرتبہ رتبے کو حاصل کرنے کے لئے وہ کچھ کرنا پڑتا ہے جو کسی دنیاوی منزل کو پانے کے لئے نہیں کرنا پڑتا۔

شہید ہونے کے لئے سب سے مشکل کام جسے گلے لگانا پڑتا ہے وہ ظاہری موت ہے۔ شہادت وہ ہے جو موت سے بچاتی ہے مگر اس کو پانے کے لئے جسمانی موت کو گلے لگانا پڑتا ہے۔

شہید مردہ نہیں زندہ ہوتا ہے جو اللہ کی راہ میں جان دیتا ہے، وہ حقیقت میں حیات جاوداں پا جاتا ہے ۔

آج میں جس بہاد ر جوان کے داستان شجاعت بیان کرنے جا رہوں اس کے نام ہے لیفٹیننٹ شہاب حامد باجوہ ہے ،4 مئی 1986ءبروز اتوار کی سہانی صبح جب سورج کی ٹھنڈی ٹھنڈی کرنیں سرزمین پاک کو بوسہ دے رہی تھیں کہ ایسے میں ایک دین دار گھرانے جناب حامد نذیر باجوہ کے گھر ایک خوبصورت موٹی موٹی آنکھوں والے سلکی سلکی سیاہ گھنے بالوں والے ہنستے مسکراتے بچے نے جنم لیا۔

باجوہ صاحب رب ذولجلال کے ہاں سجدہ ریز ہوئے اور اللہ کے اس مہمان کو خوش آمدید کہا کیونکہ شہاب حامد اپنے بہن بھائیوں میں بڑے بھائی جو ٹھہرے تھے ۔

لیفٹیننٹ شہاب حامد باجوہ نے اپنی ابتدائی تعلیم فوجی فا¶نڈیشن ماڈل سکول کراچی اور سیکنڈری تعلیم گورنمنٹ ڈگری سپیریئر سائنس کالج سے حاصل کی۔

ان کے والد کے مطابق پاک فوج میں شامل ہونا جیسے شہاب کے خون کے قطرے قطرے میں شامل تھا اُس کی خواہش تھی کہ دنیا کی عظیم فوج کا حصہ بنے اور سب سے بڑی بات والدین کو خبرہی نہ ہونے دی اور اپنا آئی ایس ایس بی کا امتحان پاس لیا۔ پھر والدین کو سر پرائز کے طورپر خوشخبری دی ۔

شہاب حامد باجوہ نے 2007ءمیں پی ایم اے جوائن کیا ، 2009 میں پاس آوٹ ہوے اور 2010ءمیں درجہ شہادت پر فائض ہو کے ہمیشہ کے اعلی و افضل ٹھہرے ۔ وہ بچپن سے ہی الگ تھلگ طبیعت کا مالک تھا والد کو بیٹے کی قربانی پر فخر ہے نذیر باجوہ کہتے ہیں کہ میری ہمت اور طاقت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب میری پہچان والد کے نام سے نہیں بلکہ بیٹے کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔

ایک باپ کے لیئے یہ فخر کی بات ہے کہ لوگ کہتے ہیں یہ ہیں غازی لیفٹیننٹ شہاب حامد باجوہ کے والد محترم۔شہزادہ بیٹا ہمیشہ شب برات کے موقع پر خواب میں ملتا ہے اور والد کو اپنے نئے گھر شفٹ ہونے کی تلقین کرتا ہے۔

والدہ کے خواب میں اکثر آیا کرتا ہے اور والدہ سے کہتا ہے کہ وہ خوش زندگی گذار رہا ہے اور والدہ کے گلے مل کر خوب باتیں کرتا ہے ۔ وہ شہزادہ بیٹا جس نے ابھی زندگی کے کئی خواب دیکھے تھے پاک فوج میں شمولیت کے بعد ابھی گھر بھی نہیں آیا تھا۔گھر والوں نے صرف تصاویر میں ہی دیکھا تھا کہ ہمارا شہزادہ پاک فوج کی وردی میں کیسا دکھا ئی دیتا ہے اصل میں دیکھنے کی شائد قدرت نے مہلت ہی نہ دی تھی ۔

جنرل عاصم منیر سے جنرل ساحر شمشاد مرزا تک

کیونکہ پاک فوج میں شمولیت کے فوراََ بعد انہیں سوات آپریشن راہ ِ راست کے لیئے بھیجواد یا گیا تھا۔ آپریشن راہ ِ راست میں زخمی ہوئے اور غازی ٹھہرے انہیں علاج معالجے کی خاطر سی ایم ایچ راولپنڈی بھیج دیا گیا ۔ اس پورے واقع کے بارے اس بہادر بیٹے نے گھر والوں کو خبر نہ ہونے دی کہیں میرا والد کمزور نہ پڑ جائے کہیں میری والدہ کے جذبات میرے جذبوں کو کمزور نہ بنا دیں۔ وہ بہادری سے لڑا اور غازی قرار پایا۔

ایک دن والد نے فون پر رابط کیا اب طبیعت کافی بہتر ہو چکی تھی والد نے پوچھا” ہاں بھئی جوان کیسے ہواور سناﺅ آپریشن کیسا جا رہاہے ؟“ تو بیٹے نے عرض کی ” ابا جان بہت اچھا رہا ہے وہ ہسپتال سے ہنستے ہوئے بات کر رہا تھا ، آپریشن تو زبردست جا رہا ہے بس تھوڑا زخمی ہو گیا تھا ،سبحان اللہ واہ کیا حوصلہ ہے والد کا جو کہتا ہے ” بتاﺅ تمہاری پوزیشن کیا تھی ؟ وہ ایک ماہ دس دن تک لڑتا رہا، اُس نے اپنے باپ کو بتایا ” ابا جان میں لیڈ کر رہا تھا۔

اپنے جوانوں کو پروٹیکٹ کرر ہا تھا۔ میں سب سے آگے تھا، جس پر والد نے کہا شاباش بیٹا ایسے ہی بہادر ی سے لڑتے رہنا اور دشمن کو نیست و نابود کر ہی لوٹنا۔

وہ ہمیشہ اپنے والدین سے دعا کا کہتا کیونکہ وہ والدین کا لاڈلہ بیٹا تھا۔ ماں باپ کے نہ جانے کیا کیا خواب تھے ،شہاب حامد دنیاوی خواب تو پورے نہ کر سکا لیکن اخروی ہر خواب تعبیر کر گیا۔ شہادت سے پہلے وہ حج اور عمرہ کی سعادت کی خواہش رکھتا تھالیکن وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔

وہ حج سے بھی بڑا کام کر گیا غازی اور شہید جیسے عظیم منصب پر فائز ہوگیا۔ غازی حامد باجوہ کو یو این او امن مشن کے لیئے بھی بھیجا گیا ، 29نومبر 2010 کو وہ اس دنیا فانی سے ہمیشہ کے کوچ کر گئے۔

لاکھوں چاہنے والوں کے دلوں میں شہاب حامد آج بھی زندہ و جاوید ہیں انہیں مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ علاقہ مکینوں کے کثیر تعداد کی موجودگی میں ان کے آبائی ٹان کے ماڈل کالونی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ لیفٹیننٹ شہاب حامد کو لائبیریا امن مشن میں گراں قدر خدمات سر انجام دینے پر HAMMARSKJOLD UN MEDAL دیا گیا جو ان کی والدہ مسز غزالہ حامد باجوہ نے وصول کیا۔

پاک فوج زندہ باد
پاکستان پائندہ باد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button