تبدیلی کا مظہر ہیلتھ کارڈ
شاہد ندیم احمد
وزیراعظم عمران خان صحت انصاف کارڈ کا اجرا کر کے ملک کے 8 کروڑ غریبوں کی دعائیں لینے جارہے ہیں، اس اسکیم کے تحت مرحلہ وار مخصوص اسپتالوں میں امراض قلب، کینسر، ذیابطیس، ڈائیلائسزاور دوسری موذی بیماریوں کے مفت علاج کی سہولتیں حاصل ہو جائیں گی۔
ہر غریب خاندان اس کارڈ کے ذریعے 7 لاکھ 20 ہزار روپے تک کا علاج حکومتی خرچ پر کرا سکے گا ،پہلے مرحلے میں اسلام آباد کے 85 ہزار مستحقین میں ہیلتھ انشورنس کارڈ تقسیم کئے جارہے ہیں،جبکہ اسی ماہ کے آخری عشرے سے پنجاب کے 4 اضلاع میں یہ پروگرام شروع ہو گا جس سے ایک ماہ میں ڈیڑھ کروڑ غریب فائدہ اٹھائیں گے۔
اس کے بعد قبائلی اضلاع میں اس ا سکیم پر عملدرآمد ہو گا، تا کہ وہاں کے لوگ بھی علاج معالجے کی مفت سہولت حاصل کر سکیں، اگرچہ یہ کوئی نئی اسکیم نہیں ، میاں نواز شریف نے بطور وزیراعظم 2015میں پرائم منسٹر نیشنل ہیلتھ پروگرام متعارف کرایا تھا ۔
جس کے تحت اسلام آباد کے علاوہ بلوچستان، پنجاب، گلگت، بلتستان اور آزاد کشمیر کے مختلف اضلاع میں ہیلتھ کارڈ تقسیم کئے گئے تھے جنہیں پاکستان کو فلاحی مملکت بنانے کے پروگرام کا حصہ قرار دیا گیا تھا، اس وقت خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے اس اسکیم کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا، تا ہم سابق حکومت کے مقابلے میں تحریک انصاف کی حکومت نے اس اسکیم میں کچھ تبدیلیاں بھی کی ہیں جن سے غریب لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
صحت انصاف کارڈ کے تحت ڈیڑھ لاکھ روپے سے کم آمدنی والوں کو بھی یہ سہولت ملے گی ، صحت کارڈز ان لوگوں کو بھی ملیں گے جن کی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں نشاندہی کی گئی ہے اور جن کی آمدنی دو ڈالر یومیہ تک ہے، اسکیم کے تحت ایک ہزار روپے ٹرانسپورٹ چارجز کے طور پر ادا کئے جائینگے اور مریض کی موت کی صورت میں 10 ہزار روپے کفن دفن کےلئے دیئے جائیں گے۔
Health Card Information in Urdu
پاکستان صحت عامہ کی سہولتوں کے اعتبار سے دنیا میں بہت پیچھے رہ گیاہے، غریب طبقات کے مفت معالجے کے لئے ملک بھر میں سرکاری اسپتال موجود ہیں،جہاں پرچی کٹوانے کی معمولی فیس دینا پڑتی ہے، مگر غریب مریضوں سے ان اسپتالوں کے عملے اور ڈاکٹروں کا رویہ عموما بے رحمانہ تصور کیا جاتا ہے۔
مرض کی تشخیص پر پوری توجہ اور نہ دوائیاں دی جاتی ہیں، آئے روزطبی عملے کی عدم توجہی کی شکایات منظر عام پر آتی ہیں،کیونکہ ہسپتالوں میںمکمل طور پر طبی سہولیات میسر نہیں ہیں،بعض مریض اسپتال میں داخلہ ملنے کے انتظار میںدم توڑ دیتے ہیں۔
ان حالات میں صحت کارڈ اسکیم اپنی اہمیت کے اعتبار سے بہت فائدہ مند ہے، مگر یہاں بھی سخت مانٹیرنگ سسٹم درکار ہو گا،حکومت کو یقینی بنانا ہو گا کہ اس اسکیم سے صرف مستحقین ہی فائدہ اٹھائیں ،اگرصحت کارڈ حقیقی ضرورت مندوں کو ملیں تو ملک سے بیماریوں کے خاتمے میں مدد ملے گی۔
پاکستان کی سیاسی جماعتیں ملک کو فلاحی ریاست بنانے کا دعوی کرتی رہی ہیں، آزادی کے بعد ستر سال اہل پاکستان نے اس طرح گزارے ہیں کہ انہیں نہ اچھی جمہوریت ملی نہ ان کی فلاح و بہبود کا انتظام ہوسکا، چند روز قبل ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہر روز کینسر سے پاکستان میں 219 افراد مر رہے ہیں، تھر میں معمولی امراض میں گرفتار بچے علاج معالجے کی سہولیات میسر نہ ہونے پر مر جاتے ہیں۔
پاکستان ان سات ممالک میں شامل ہے، جہاں سب سے زیادہ کینسر کے مریض موجود ہیں،بڑھتی ہوئی آبادی او رآلودگی کی وجہ سے ملک کے اکثر علاقے ہیپاٹائٹس کی لپیٹ میں آ چکے ہیں،اس پر ستم ظریفی کہ متعدد ہسپتالوں میں ٹیسٹ ودیگر سہولیات میسر نہیں ہیں،علاج معالجے کی غیر معیاری سہولیات کی وجہ سے مریض اور اس کے خاندان کی مشکلات بڑھنے لگتی ہیں، یہ صورت حال بعض اوقات اکثر آسودہ خاندانوں کی مالی تباہی کا باعث بھی بن جاتی ہے۔ پاکستان میں علاج معالجے کا نظام ریاست اور نجی شعبہ دونوں کے زیرانتظام موجود ہے ۔
آٹ ڈور مریضوں کی 80 فیصد تعداد نجی علاج گاہوں سے رجوع کرتی ہے،مگر حکمرانوں کے تمام تر دعوں کے باوجود غریب صحت کی سہولیات حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد سرکاری سطح پر صحت کی سہولیات کا نظام صوبوں کو منتقل کردیا گیا، توقع کی جا رہی تھی کہ اس فیصلے سے وفاق اور صوبوں کے زیرانتظام اداروں کے معاملات ایک ہی مربوط پالیسی کی وجہ سے علاج کی بہتر سہولیات کی فراہمی کا باعث ہوں گے ۔
مگر ایسا نہیں ہو سکا، لاہور ،کراچی جیسے بڑے شہروں میں جو ہسپتال وفاق سے صوبوں کومنتقل ہوئے ان میں پہلے سے بھی زیادہ خرابیاں بڑھ گئیں،حالیہ جائزوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں علاج معالجے کی نجی سہولیات نے مریضوں کا اعتماد حاصل کیا ، مگر اس کے ساتھ نجی لیبارٹریوں اور ہسپتالوں کی سہولیات سے استفادہ کرنا عام آدمی کے بس کی بات نہیںہے۔
اس بات کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ بڑے شہروں کو چھوڑ کر ملک کے بیشتر علاقوں میں سرکاری یا نجی علاج گاہوں کا وجود ہی نہیںہے۔ اس صورت حال میں وہاں کے غریب آدمیوں کے لیے صحت کارڈ شاید اس قدر مفید ثابت نہ ہو سکے ۔
حکومت کو چاہیے کہ صحت کارڈ کے ساتھ مخصوص حجم کے علاقے میں صحت کی ضروری سہولیات کا مرکز قائم کرنے کا انتظام کرے، اگر کہیں بنیادی مرکز صحت موجود ہے تو اس کی حالت بہتر بنائی جائے۔حکومت کاعوام کی بھلائی کے لیے سکیم بنانا احسن قدم ہے ،مگر بغیر منصوبہ بندی ایسے اقدامات ناکامی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
پاکستان میں سرکاری ادارے اور مشینری جس طرح قومی دولت کو لوٹتے گھسوٹتے ہیں ، اس کی روشنی میں حکومت کو نہایت چوکس رہنے کی ضرورت ہوگی ورنہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرح ریلف ملنے کی بجائے عوامی شکایات کا انبار لگ جائے گا۔
سیاسی وگیر سیاسی عناصر نے ہزاروں غریب ہاریوں سے شناختی کارڈ لے کر ان کے نام پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم جاری کروائی گئی جو آج تک ان غریبوں کو نہیں ملی ،کیونکہ کرپٹ لوگوں کو کرپٹ سیاسی قیادت کی اشیرباد حاصل ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ دن بدن بڑھتی مہنگائی کے باعث صحت جیسی بنیادی ضرورت کے لیے ایک عام کھاتا پیتا آدمی بھی پریشان رہتا ہے ،ڈاکٹروں کی بھاری فیسیں، مہنگی دوائیں اور دیگر لوازمات عام آدمی کو معاشی طور پر تباہ کردیتی ہیں۔
اس اعتبار سے تحریک انصاف حکومت کا صحت کارڈ اقدام بلاشبہ درست سمت میں مثبت قدم ہے ،مگرصحت کارڈز حاصل کرنے کے بعد مریض جب حکومت کے منظور شدہ ہسپتالوں کا رخ کریں گے تو ان کے لیے گنجائش پیدا کرنا مشکل ہو جائے گا۔گزشتہ دور حکومت میں یہی صحت کارڈ (کے پی کے) میں جاری کیا گیا تھا۔
اس میں وہی بے ضابطگیاں ہوئیں جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں ہوئی تھی ،بعض گھروں کے چار، پانچ لوگوں کو یہ کارڈ جاری کیے گئے جن کے پاس جائداد ، کاروبار تھے اور وہ کسی طرح بھی غریب مستحق نہیں تھے۔
ایک بار پھر یہ کارڈ ملک گیر سطح پر جاری کرنے کا اعلان کیا گیا ہے تو اس میں بدعنوانی کے وسیع امکانات ہیں ۔پاکستان 21 کروڑ افراد کا ملک ہے ،اتنی بڑی آبادی کے مسائل کو نظرانداز کرکے آگے نہیں بڑھا جا سکتا، جب تک ریاست عام آدمی کو یہ احساس نہ دلائے کہ وہ اس کی بہبود کے لیے فکر مند ہے ۔
وزیراعظم عمران خان مریضوں اور ان کے لواحقین کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہوں گے ،کیونکہ انہوں نے ایک بیٹے کی حیثیت سے اپنی والدہ کو بیماری سے لڑتے دیکھا، صحت کارڈ سکیم سے لاکھوں بچوں کی مائیں بروقت علاج ملنے سے بچ سکتی ہیں،حکومت کی جانب سے صحت کارڈ کی فراہمی عوام کے لیے تبدیلی کا مظہر ہوگا۔
اس فیصلے سے کروڑوں افراد کو فائدہ پہنچے گاجو علاج معالجے کی سکت نہ رکھنے کے باعث ریڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے تھے،یہ سکیم کسی بدانتظامی کا شکار نہ ہوئی تو تحریک انصاف حکومت کی نیک نامی میں اس کا حصہ سب سے زیادہ ہو سکتا ہے۔