کالم و مضامین

اسلام عدل و انصاف، مساوات اور انسانی خیر خواہی کا دین ہے

تحریر: ابونصر فاروق

(۱) قرآن کہتا ہے ”اے لوگو ہم نے تم کو ایک مرد سے پیدا کیا اور اُس کا جوڑا بنایا اور اُن دونوں سے بیشمار مرد و عورت پیدا کر کے دنیا میں پھیلا دیے۔(النسائ:)”اے لوگو ہم نے تم کو ایک مرد او ر ایک عورت سے پیدا کیا اورتمہارے گروہ اورقبیلے بنا دیے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔بیشک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ خوف خدا رکھتا ہے۔“ (الحجرات:)
ان دونوں آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی پوری آبادی ایک خاندان ہے جو بدلتے ہوئے حالات کے تحت ساری زمین پر پھیل گئی اور اُ س کے رنگ روپ، شکل و صورت،فکر و خیال،تہذیب و تمدن،رہن سہن، طور طریقے اورجینے کے ڈھنگ الگ الگ ہو گئے۔لیکن بنیادی طور پر سب ایک خاندان کے لوگ اورآپس میںرشتے دار ہیں۔انسانی فطرت ہے کہ جب اُس کو کسی انجان فرد کے متعلق معلوم ہوتا ہے کہ وہ اُس کا رشتہ دار ہے تو اُس کو خوشی ہوتی ہے اور وہ اُس انجان فرد کو اپنا سمجھ کر اُس سے محبت کرنے لگتا ہے۔جس فطری تبدیلی کا اوپر ذکر کیا گیا اُس کی حکمت قرآن یہ کہہ رہاہے کہ الگ الگ مقامات اور ماحول کے رہنے والوں کی پہچان بن سکے اور اُنہیں یاد رکھنا آسان ہو۔لیکن یہ سب مادی چیزیں انسان کے چھوٹے اور بڑے ہونے کے لئے نہیں ہیں۔صرف پہچان کے لئے ہیں۔
حضرت عثمانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:تم میں سب سے اچھے آدمی وہ ہےں جو قرآن کا علم حاصل کریں اور دوسروں کو اس کی تعلیم دیں۔ (بخاری) انسان کی عظمت کی ایک اوربنیاد یہ معلوم ہوئی کہ قرآن کو صرف بغیر سمجھے پڑھنا نہیں،بلکہ سمجھنا،اُس پر عمل کرنا اور اُس کی تعلیمات کو دوسرے لوگوں تک پہنچانا انسان کوعظمت عطا کرتا ہے اور اعلیٰ درجہ دیتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میںکامل ایمان والے وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں(ترمذی،ابو داو¿د،دارمی)اس فرمان نبوی سے معلوم ہوا کہ اخلاق یعنی انسانی عادتیں اگر اچھی ہیں تو وہ اعلیٰ درجہ کا انسان ہے۔جو اعلیٰ اخلاق کے لوگ ہوتے ہیں فطری طور پر وہ انسانو ں کے درمیان عزت اور محبت دونوں کے حقدار ہوتے ہیں۔دوسرے مذہب کے لوگ بھی اُن کی عظمت اوراُن کے اعلیٰ درجے کا انسان ہونے کو مانتے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہؓ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: محتاج و نادار لوگوں کے لئے دوڑ دھوپ کرنے والا، اُس آدمی کی طرح ہے جو اللہ کی راہ(جہاد) میں سرگرمی دکھا رہا ہے۔(راوی کا بیان ہے)میرا خیال ہے کہ آپ نے فرمایا:ایسا آدمی اس تہجد گزار کی طرح ہے جو نوافل کی ادائیگی سے تھکتا نہیں ہے، یا اس روزہ دار کی طرح ہے جو روزے رکھنا نہیں چھوڑتا۔(بخاری و مسلم)یہ حدیث بتاتی ہے کہ اعلیٰ درجہ کی عبادت مجبور، محتاج اورمعذور لوگوں کی مدد کرنا ہے۔یہ عمل اُس وقت تک نہیں ہو سکتا ہو جب تک انسان کے دل میں انسانوں کی محبت نہ ہو اور وہ خیر خواہی کے جذبے سے محتاجوں اور مجبوروں کی مدد کرناسب سے بڑی عبادت سمجھتا ہو۔
ا س کے برخلاف شیطان نے انسانوں کے ایک گروہ کے بیچ یہ سوچ پیدا کرکے اُن کو اللہ کی نافرمانی پر آمادہ کیا کہ تم سنہرے لوگ ہو۔تم خدا کے خاندان کے لوگ ہو۔تمہاری برابری دنیا کی کوئی قوم یا کوئی طبقہ کر ہی نہیں سکتا ہے۔تم چاہے جتنے بھی برے اور خراب بن جاو¿ پھر بھی تم اعلیٰ اور عمدہ رہو گے۔تمہارے مقابلے میں جتنے لوگ ہیں وہ جانوروں سے بھی بد تر ہیں۔اُن کے ساتھ ویساہی برتاو¿ کرو جیساجانوروں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ایسے جانوروں کو کبھی آگے بڑھنے اورترقی کرنے کا موقع نہ دو کہ وہ تمہاری برابری میں آ جائیں۔ایسا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دنیا میں کبھی جمہوی حکومت نہ بننے پائے۔ ہمیشہ یا بادشاہت رہے،یا ڈکٹیٹر شپ۔ایسی حکومت بنانے کے لئے وطن پرستی اورقوم پرستی کا جذبہ پیدا کرنا ضروری ہے۔جب لوگوں کے نزدیک یہ عقیدہ مضبوط ہو جائے گا کہ ہمارے وطن میں ہمارے ساتھ چاہے جتنی ناانصافی کی جارہی ہو، ہمارے حکمراں ہم پر چاہے کتنا ہی ظلم اور زیادتی کر رہے ہوں،ہمیں ان سب باتوں کو بھول کر اپنے حکمرانوں کے حکم پر اپنے وطن اور اپنی قوم کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دینا چاہئے۔اس شیطانی عقیدے سے پہلے تو انسانی مساوات اور برابری کی جڑ کٹتی ہے۔ دوسرے عدل و انصاف کا خون ہوتا ہے۔تیسرے انسانی ہمدردی کا جذبہ جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔
اب آپ برابری کیجئے، ایک طرف اسلام ہے اور ایک طرف شیطانی نظام ہے۔کیا دونوں ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں؟ نہیں ….جہاں اسلامی نظام ہوگا ،وہاں شیطانی نظام نہیں ہوگا۔ اور جہاں شیطانی نظام ہو گا وہاں اسلامی نظام نہیں ہوگا۔مسلمانوں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ نے اور اُن کے ساتھ اُن کے فرقے کے لوگوں نے گنگا جمنی تہذیب کا گُن گان کرنا شروع کیا اور اسی کو اپنے وطن کی تہذیب بتاکر اُس کی تبلیغ و اشاعت میں لگے رہے۔لیکن دنیا میں جو شیطانی گروہ تھا وہ ہمیشہ اس گنگا جمنی تہذیب کا مخالف اور اس کا دشمن بنا رہا۔
جب پڑھے لکھے سماجی لحاظ سے اعلیٰ درجہ کے لوگوں نے اسلام اور شیطانی نظام میں ساجھے داری کی بات کہنی شروع کی تو اُن کی دیکھا دیکھی مسلم سماج کے دوسرے لوگ بھی یہی کلمہ پڑھنے لگے۔اس طرح ان لوگوں نے اللہ کی نگاہوں میں بہت برا جرم اور گناہ کیا کہ شیطان کو اللہ کے مقابلے میں کھڑا کر دیا، اور اُن لوگوں کوایسی باتوں کی دہائی دینے لگے جن کا عقیدہ ہی اس کے خلاف تھا۔مسلمانوں کو اس کوشش میں کامیابی اُسی وقت مل سکتی تھی جب مخالف طاقتیں پنا عقیدہ بدل دیتیں۔لیکن مسلمانوں کے دشمن تو اپنے عقیدے اور تصور میں بالکل پکے اور سخت تھے۔اُن کے طبقے کے وہ لوگ جوقوم پرستی اوروطن پرستی کا عقید ہ تو رکھتے تھے مگر سختی کرنے پرآمادہ نہیں تھے، وہ عملی طورپر نہیں صرف زبانی طور پر مسلمانوں کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔ایسی منافقت کا نہ دنیا میں کبھی فائد ہ ہوا ہے نہ کبھی ہونے والا ہے۔چنانچہ مسلمان گنگا جمنی تہذیب کا راگ الاپتے رہے اور اُن کے دشمن اُن کی جڑیں کاٹتے رہے۔اس وقت جب کہ پوری دنیا مسلمانوں کی دشمن بنی ہوئی ہے، مسلمانوں کو کہاں پناہ ملے گی اور کس جگہ وہ اپنی زندگی سنوار سکیں گے ؟
گنگا جمنی تہذیب والے مسلمانوں کو سمجھنا چاہئے کہ شیطانی طاقتیں جب اپنے ہم مذہب، ہم قوم اور ہم خیال لوگوں کے خیر خواہ، اُن کی ترقی ، خوشحالی اور اُن کو برابری کا درجہ دینے کو تیار نہیں ہیں تو اپنے جانی دشمن ایمان اور اسلام کے ماننے والوں کے ہمدرد اور خیر خواہ کیسے بن سکتی ہیں ؟
مسلمانوں کی گمراہی ، آخرت فراموشی ، دنیا پرستی اور بے عملی کے سبب اللہ تعالیٰ نے اپنے نافرمان بندوں کو دنیا میں کام کرنے اورترقی کرنے کا موقع عنایت کر دیا ہے۔شیطان لعین اُن کا رہبر اور خدا بن بیٹھا ہے۔شیطان ایک طرف تو نام نہاد مسلمانوں کو اپنی پیروی کرنے والوںکے ذریعہ تباہ و برباد کرنے پر تلا ہے اور دوسری طرف اپنی پیروی کرنے والوں کو بھی مسائل میں اس طرح الجھا دیا ہے کہ اُن کو نہ رات چین نہ دن آرام۔وہ آپس میں ہی لڑ اور جھگڑ رہے ہیں اوراپنے ہاتھوں اپنے گلشن میں آگ لگا رہے ہیں۔
اس پورے مسئلے کا ایک دوسرا پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ جو باتیں اوپر لکھی گئیں اُنہیں بیسویںصدی تک مسلمانوں کے رہبر سمجھتے رہے اور مسلمانوں کو سمجھانے کی کوشش کرتے رہے ۔لیکن اکیسویں صدی کی شروعات کے بعدجتنے مسلم رہبرسامنے آئے ،وہ ایک طرف مسلمانوں کو قرآن سے دور کرکے،اپنی دنیا سنوارنے کا نامعقول مشورہ دینے لگے اور اُن کو بے دینی کی خرافات میں الجھانے میں مصروف ہو گئے۔دوسری طرف اپنی آخرت کی جگہ دنیا سنوارنے کے لئے باطل طاقتوں سے سا ز باز کرنے میں لگ گئے۔نتیجہ یہ ہوا کہ باطل طاقتوں کی نگاہوں میں بھی یہ ذلیل و رسوا ہو گئے اور اپنوں کے درمیان بھی ان کی عزت آبرو لٹ گئی۔جتنے ہوش مندباشعور اور نظر رکھنے والے مسلمان ہیں وہ ان مذہبی رہنماو¿ں کو خوب پہچانتے ہیں جو بھیڑ کی کھال میں چھپے ہوئے بھیڑیے کا کردار نبھا رہے ہیں۔
دنیا بھر کے مسلمان اپنے دشمنوں اور قاتلوںسے رحم کی بھیک مانگ رہے ہیں اور عدل و انصاف کی دہائی دے رہے ہیں۔ان کی مثال ویسی ہی ہے جیسے بکرا قصائی سے التجا کرے کہ حضور خدا کے واسطے اس بے زبان پر رحم کیجئے۔یا گھاس گھوڑے سے کہے کہ کسی بے زبان کو اپنی خوراک بنانا گناہ عظیم ہے۔ اللہ سے ڈریے اور میرے حال پر رحم کیجئے۔
ان سب باتوں کے بعد آخری سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان کیا کریں ؟
یہ کوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں ہے جو حل نہ ہو سکے۔یا ایسا معمہ نہیں ہے جس کے لے سر کھپانا پڑے۔دنیا میں جب حضرت محمد ﷺ آخری نبی کی حیثیت سے تشریف لائے تو اُن کی قوم نے اُن کا استقبال نہیں کیا۔ اُن کے خیر مقدم کے لئے قالین نہیں بچھائی۔بلکہ ویسے ہی اُن کی جان کے دشمن بن گئے جیسے آج دنیا مسلمانوں کی دشمن بنی ہوئی ہے۔لیکن قوم کی دشمنی سے بے پروا ہو کر پیارے نبیﷺ اللہ کے حکم پر اللہ کے بندوں تک اللہ کا دین پہنچاتے رہے اور اُن کی دنیا اور آخرت سنوارنے میں لگے رہے۔پھر اللہ کی مدد آئی جس کا اُس نے وعدہ کیا ہے اور دنیا نے دیکھا کہ باطل اورکافر و مشرک طاقتیں اپنی تمام شان و شوکت اور قوت و طاقت کے بعد بھی پسپا ہو گئیں اور اسلام سربلند ہوا اوراُس کا جھنڈ ساری دنیا میں لہرانے لگا۔
وہی رب العالمین آج بھی موجود ہے، غائب نہیں ہو گیا،نبیﷺ کے کام کرنے کا وہی طریقہ آج بھی کتابوں میں موجود ہے۔کائنات کا مزاج نہ اُس وقت بدلا تھا نہ آج بدلا ہے۔مسلمان اگر آج بھی دین کی دعوت کا کام رسول اللہﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کرنے لگیں،دنیا سے بے نیاز ہو کر اللہ کی رضامندی اور خوش نودی کے لئے اُس کے بندوں کی دنیا اور آخرت سنوارنے والے بن جائیں، تو وہ دیکھیں گے کہ منٹوں اور لمحوں میں موسم بدلے گا اورفضا بدلے گی۔حق جلوہ گر ہوگا اور باطل دھول چاٹتا دکھائی دے گا۔

دُرانی خاندان کے چشم و چراغ نواب مظفر خان سدوزئی
دوسری بات یہ کہ غیروں اورصاحبان اقتدار سے بے پروا ہو کر مسلمان اگر دین کے سچے پیرو بن جائیں تو آج بھی دنیا بھرمیں اُن کی سلامتی، حفاظت اور ترقی کی راہیں موجود ہیں۔
وطن عزیز میںمسلمان اگر یہ دو کام کر سکیں، تو اُن کے دشمن اُن کو تباہ و برباد نہیں کر سکیں گے۔(۱)وقف کی جتنی جائیدادیں ہیں اور جو مسلمانوں کے قبضے میں ہیں،اُن کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹنے اور حرام طریقے سے کھانے سے توبہ کر کے اُس کا ایسا استعمال کریں جس سے مسلم ملت کی رہائش کا مسئلہ حل ہو جائے اور کوئی مسلم خاندان بے گھر نہ رہے۔کرائے کے گھر میں رہنے پر مجبور نہ ہو۔(۲)ملک میں جتنے صاحب نصاب زکوٰة نکالتے ہیں اُن کی زکوٰة، اورجو صاح نصاب زکوٰة نہیں نکالتے ہیں اُن کو زکوٰة نکالنے پر آمادہ کرنے کے بعد ساری زکوٰة ایک مرکزی بیت المال میں جمع کی جائے۔ ہمارے درمیان جو صاحب تقویٰ و طہارت، عقل و شعور اور فہم دین رکھنے والے،عدل و انصاف اور انسانی ہمدردی کے جذبے سے مالا مال ہیں حضرات ہیں،اُن کو یہ ذمہ داری دی جائے کہ مسلمانوں کی بنیادی معاشی ضرورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اُن کی مناسب مالی امداد کی جائے اور مسلمانوں کو ایسی صنعت و حرفت اور روزگار سے لگایا جائے کہ ہر مدد لینے والا ایک مدت کے بعد زکوٰة دینے والا بن جائے۔(۳)بھیک مانگنے والوں کو سختی سے روکا جائے ۔اُن کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کا انتظا م کیا جائے اور پھر بھی اگروہ بھیک مانگیں تو اُن کو معقول سزا دینے کا اہتمام کیا جائے۔ان کوششوں میں جب کہ یہ خلوص، خیر خواہی اور دینی جذبے سے کی جانے لگیں گی تو بہت جلد اللہ تعالیٰ برکت عطا کرے گا اور پھر وہی لوگ جو مسلمانو ں کو لعنت ملامت کرنے میں لگے ہوئے ہیں ، مثالیں دینے لگیں گے کہ دیکھو زندہ قومیں اس طرح اپنے آپ کو سنوارتی اور ترقی کی اونچائیوں تک پہنچاتی ہیں۔
لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں ہے۔ اس کام میں رکاوٹ ایک تو وقف بورڈ بنے گا جو سرکاری ادارہ ہے اور وقف کی جتنی املاک تباہ وبرباد ہوئی ہے اُس میں وقف بورڈ کی ملی بھگت شامل ہے۔ دوسرے زکوٰة کو اُس کے حقداروں تک پہنچانے میں سب سے بڑی رکاوٹ مذہبی جماعتیں، مدرسے اور انجمنیں ہیں جو حقداروں کی جگہ اپنے آپ کو زکوٰة کا حقدار سمجھتی ہیں اور سب سے زیادہ مسلمانوں کی زکوٰة انہیں کو ملتی ہے۔وقف بورڈ اور مذہبی ذمے داران اس کام کو کبھی ہونے نہیں دیں گے۔
یہ تمام باتیں قرآن و سنت کی بنیاد پر لکھی گئی ہیں۔ قرآن و سنت کے جو حوالے دینے ضروری تھے وہ سب پہلے کے مضامین میں دیے جاتے رہے ہیں ،اس لئے طوالت سے بچنے کے لئے یہاں وہ حوالے نہیں دیے گئے ہیں۔اہل علم اور میرے مضامین کے قاری آسانی سے سمجھ جائیں گے کہ کہاں کون سی آیت پیش نظر ہے۔
یار ب ! جو نہ سمجھے ہیں ، سمجھ لیں وہ مری بات
دے اُن کو دل ایسا کہ زباں دی مجھے جیسی

ةضظژظضة

Islamic article in Urdu | Islam is a religion of justice

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button