کالم و مضامین

دُرانی خاندان کے چشم و چراغ نواب مظفر خان سدوزئی

تحریر: وسیم خان دُرانی

M Tahir Tabassum Urdu Columnist
M Tahir Tabassum Urdu Columnist

دو سو چار سالہ یوم شہادت پر خصوصی تحریر

نواب مظفر خان سدوزئی (دُرانی)26 اگست 1757 بروز جمعہ نواب شجاع خان سدوزئی اور شیریں بیبی کے گھر ملتان میں پیدا ہوئے ان کی پیدائش کے وقت ان کے والد محترم شجاع خان اور ان سے قبل ان کے دادا نواب زاہد خان سدوزئی ریاست ملتان کے گورنر تھے نواب مظفر خان سدوزئی کے والد اور دادا کو افغانستان کے درانی بادشاہ احمد شاہ ابدالی کی جانب سے ملتان کا حاکم (گورنر) مقرر کیا گیا تھا۔

شجاع آباد شہر نواب مظفر خان سدوزئی کے والد شجاع خان کے نام سے آباد کیا گیا تھا جبکہ مظفر گڑھ کی بنیاد نواب مظفر خان کے نام پر رکھی گئی تھی سن 1775 میں جب گنڈا سنگھ نے شجاع آباد پہ حملہ کردیا اور بھاری فوجی تعداد کے ساتھ ملتان کو محاصرہ میں لے لیا تو نواب مظفر خان سدوزئی نے 18 سال کی عمر میں نہایت بہادری اور دلیری کیساتھ سکھ فوج کا مقابلہ کیا اور ملتان کا دفاع کیا۔

بالآخر سکھوں کی لالچی ذہنیت کو بھانپتے ہوئے سکھوں سے بات چیت کر کے انہیں خزانے سے پیسے دیئے لیکن سکھ پیسے لینے کے باوجود اپنے معاہدے سے منحرف ہو گئے اور ملتان سکھوں کے زیر تسلط آگیا سن 1775ءمیں اپنے والد کی وفات کے مظفر خان سدوزئی نے شجاع آباد کی حکمرانی سنبھالی انہوں نے کئی بار ملتان کو فتح کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے۔

سن 1780 میں جب احمد شاہ ابدالی درانی کے فرزند اور احمد شاہ ابدالی کی وفات کے بعد افغانستان کے بادشاہ بننے والے تیمور شاہ درانی نے سکھوں کو ملتان سے مار بھگایا اور مظفر خان سدوزئی کو ملتان کو گورنر مقرر کیا اور انہیں باضابطہ طور پر (نواب) کا خطاب ملا سن 1817 میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنے فوجی کمانڈروں دیوان بھون داس، کھڑک سنگھ اور مشی دیوان چند کی سربراہی میں بہت بڑی تعداد میں فوجی لشکر ملتان پر حملہ کرنے کے لیے روانہ کیا اس لشکر کے پاس دیگر ہتھیاروں اور فوجی سازو سامان کے علاوہ ”زمزمہ” نام کی اس دور کی جدید توپ بھی شامل تھی۔

رنجیت سنگھ کی فوج نے ملتان کا محاصرہ کر لیا اور نواب مظفر خان کو اپنے ایلچی کے ذریعے رنجیت سنگھ کا پیغام بھجوایا کہ وہ اگر سکھ دربار کی حکمرانی قبول کر لے تو ریاست ملتان میں اس کی حکمرانی رہے گی اور ملتان رنجیت سنگھ کے زیر نگیں آجائے گا۔

نواب مظفر کو خراج دینا ہو گا مگر شیر دل نواب مظفر خان درانی نے سکھوں کی آرمی کے مقابلے میں فوجی قوت اور اسلحہ کم ہونے کے باوجود اپنی عوام کے تعاون سے ملتان کا دفاع کرنے کا فیصلہ کیا اور رنجیت سنگھ کی پیشکش ٹھکرا دی نواب مظفر خان اور ان کے لشکر نے 9 ماہ تک سخت مزاحمت کرتے ہوئے سکھ فوج کو ملتان آنے سے روکے رکھا لیکن خوراک کے ذخیرہ کی کمی اور رسد بند ہونے کی وجہ سے ملتان کے اندرونی حالات بے حد خراب ہونے لگے اور قوت مدافعت ختم ہوتی چلی گئی۔

بالآخر 30 مئی 1818 کو نواب مظفر خان درانی کے جانبازوں کا دفاعی حصار توڑ کر سکھوں کی تازہ دم کمک ملتان شہر میں داخل ہو گئی گھمسان کی جنگ کا آغاز ہوا نواب مظفر خان درانی سدوزئی نے انتہائی بہادری اور دلیری کے ساتھ تین دن تک مقابلہ جاری رکھا۔

شہباز شریف کے جان نثار ساتھی

اور 2 جون 1818 کو نواب صاحب نے اپنے سات فرزندگان، اہلیہ اور ایک دختر و رفقاءکے ہمراہ قلعہ ملتان کے بیرونی مرکزی دروازے پر جام شہادت نوش کیا نواب مظفر خان درانی نے جان بخشی کے لیے ہتھیار ڈالنے کی بجائے زندگی کی آخری سانس تک سکھ فوج کا مقابلہ کیا اور اپنے پیاروں کے ہمراہ جان آفریں کے سپرد کردی۔

اور خالق حقیقی کی بارگاہ میں سرخرو ہو گئے نواب مظفر خان درانی کی آخری آرام گاہ ملتان میں واقع مشہور بزرگ صوفی حضرت بہاالدین زکریا ملتانی کے مزار کے برآمدے میں ہے ۔

جبکہ ان کے ساتھ فرزندگان اہلیہ و دختر کی قبریں مزار کے مقبرے سے باہر احاطے میں موجود ہیں نواب صاحب کی اہلیہ کوثر جہاں، بیٹی صبیحہ اختر، بیٹے رستم زمان خان، شاہ نواز خان، شہباز خان، اعزاز خان، حق نواز خان، احمد نواز خان، طالع مند خان اور بھتیجا نصراللہ خان و دیگر رفقاءو اقربا نواب صاحب کے شانہ بشانہ سکھوں کے ساتھ دلیرانہ مقابلہ کرتے ہوئے شہادت کے مقام پر فائز ہیں۔

Nawab Muzaffar Khan Saduzai History Urdu Article Awaz News | who was Nawab Muzaffar Khan? نواب مظفر خان کون تھا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button