کالم و مضامین

قدرتی دولت سے مالامال بلوچستان کاضلع موسیٰ خیل

قدرتی آبشاروں ، سرسبز وشاداب لہلہاتے کھیتوں اور گھنے جنگلات کی زرخیزز مین

Khalid Hussain columns
Khalid Hussain

صوبہ بلوچستان جسے قدرت نے بے شمار معدنی دولت سے مالا ما ل کررکھا ہے وہاں قدرت نے لاتعداد وادیوں میں اپنا حسن بھی بکھیر رکھا ہے ان دلکش وادیوں میں ایک حسین وادی موسیٰ خیل بھی ہے جس کا شمار صوبہ بلوچستان کی اُن حسین اوردلکش وادیوں میں ہوتا ہے۔

جو جنت نظیر وادی کشمیر سے کم نہیں ہیں ، موسیٰ خیل بلوچستان کے شمال مشرقی سرحد پر واقع ہے جوکہ کل 7552مربع کے علاقے پر مشتمل ہے یہ ضلع صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے تقریباً 300 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جو خیبرپختونخواءکے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب واقع ہے اور اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ ضلع موسیٰ خیل صوبہ پنجاب کے ضلع تونسہ شریف سے بھی بالکل قریب واقع ہے۔

اگر ہم یہ کہیں کہ یہ ضلع ملک کے دو صوبوںپنجاب اور خیبر پختونخواءکے سنگم پر واقع ہے تو غلط نہ ہوگا ،1992 ءمیں اسے ضلع کادرجہ دیا گیا تھا اس سے قبل یہ ضلع لورالائی کی ایک تحصیل تھاژوب ڈویژ ن سے لورالائی کو الگ کرکے نیا ڈویژن بنانے کے بعد اب یہ لورالائی ڈویژن کا حصہ ہے۔

اس ضلع کی کل 17 یونین کونسلیں ہیں اور سب تحصیلوں میں کنگری ، درگ، توئی سر،موسیٰ خیل اور زمری شامل ہیں یہ ضلع قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 263میں شامل ہے ، درُگ اور راڑہ شم کے علاقوں میں جعفر قبائل آباد ہیں یہ سرائیکی زبان سے ملتی جلتی زبان بولتے ہیں جب کہ کرکنہ ، گڑ گوجی اور اندڑپور کے علاقوں میںبزدار اور قیصرانی بلوچ قبائل آباد ہیں،اس ضلع کا کل رقبہ 2212 مربع کلومیٹر ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق اس کی آبادی 2 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے ،ضلع میں 80 فیصد موسیٰ خیل پشتون آباد ہیں اور اسی وجہ سے اس ضلع کا نام موسیٰ خیل قوم کے نام پر رکھا گیا ہے ،اس کی تاریخ سے متعلق کہا یہ جاتا ہے کہ موسیٰ نکہ کے دو بیٹے تھے۔

ایک کا نام بیل اور دوسرے کانام لاہر نکہ تھابیل نکہ کی اولاد موسیٰ خیل شہر اور مضافات میں آباد ہوئی جسے بیل خیل کہتے ہیں جبکہ لاہرنکہ کی اولاد تحصیل کنگری میں آباد ہوئی جسے لہرزئی بھی کہتے ہیں ان ِ اقوام کے علاوہ ایسوٹ ،مرغزانی ، زمری ، علی خیل کے اقوام بھی آباد ہیں جوکہ موسیٰ نکہ کے بھائی تھے ۔

ضلع بھر میں کل 22 بوائز اور گرلز ہائی سکول ، 25 بوائز اورگرلز مڈل سکول ،295 بوائز اور گرلز پرائمری سکول ہیں تعلیمی میدان میں صوبے کے بعض دیگر اضلاع کی طرح یہ ضلع بھی اس جدید سہولیات سے محروم ہے سرکاری سکولوں کی اکثریت عمارتوں کے معاملے میں اس قدر خستہ حالی کا نمونہ پیش کرتی دکھائی دے گی کہ گویا کھنڈرات اور پتھر کے زمانے کی منظر کشی کی گئی ہو۔

کئی سکول عمارت کے بغیر قوم کے نونہالوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں اور کھلے آسمان تلے قوم کے معمار علم کے چراغ روشن کررہے ہیں بعض ایسے سرکاری سکول جو عمارتو ں میں قائم ہیں وہاں کئی سالوں سے مرمت کاکام نہ ہونے کی وجہ سے خستہ حالی منہ چڑھا رہی ہے۔

موسیٰ خیل شہر کا سب سے بڑا سرکاری سکول گورنمنٹ ماڈل ہائی سکول 1965 ءمیں قائم ہوا تھا اس وقت سے اب تک وہاں صرف 5 نئے کمرے تعمیر کئے گئے ہیں یعنی اگر ہم یہ کہیں کہ 56 سالوں میں اس سکول کی ترقی کے معاملے میں ہم نے صرف 5کمروں کی ترقی کی ہے تو غلط نہ ہوگا۔

سرکاری سکولوں کی خستہ حالی کا ایک نمونہ بجلی اور پانی جیسی سہولیات کا ناپید ہونا ہے جہاں دیگر ضروریات کی کمی ہے وہاں سرکاری سکول بیت الخلاءجیسی اہم ضرورت سے بھی محروم ہیں اور اس سہولت سے خواتین کے سکول بھی محروم ہیں دور جدید میں جہاں تعلیم کی اہمیت کو ہر باشعور فرد بخوبی جانتاہے وہاں خواتین کی تعلیم کی بات تو کی جاتی ہے۔

تصاویر: نیک دین موسیٰ خیل

مگر ضروری سہولیات کی فراہمی دکھائی نہیں دیتی جوکہ ہمارے لیے کسی لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے ضلع بھر میں ہائرایجوکیشن کے لیے صرف ایک ڈگری کالج ہے جو راڑہ شم کنگری تحصیل میں واقع ہے۔

ضلع موسیٰ خیل قدرتی دولت سے مالامال سرسبز د شاداب ضلع ہے یہاں ڈھیروں اقسام کی معدنیات سمیت قدرتی جنگلات ، جڑی بوٹیوں ، اور مال مویشیوں کے لیے قدرتی چراگاہوں پرمشتمل اس ضلع میں زیتون، چلضوزے ، پائین کے درختوں پر مشتمل گھنے جنگلات پائے جاتے ہیں کہا یہ جاتاہے کہ ان جنگلات میں 75 سے زائد ادویات میں استعمال ہونے والی جڑی بوٹیاں کثرت سے پائی جاتی ہیں جوکہ دیہی علاقوں کے باسیوں کی زندگی میں خاصی اہمیت کی حامل ہیں۔

اگر ان جڑی بوٹیوں پر تحقیق کی جائے تو یہ طب کے شعبے میں کافی کارآمد ثابت ہوسکتی ہیں، قدرتی چشموں ، آبشاروںاورخوبصورت پکنک مقامات ضلع موسیٰ خیل کی شہرت کی ایک خاص بات ہیں سلئی ، حمزہ زئی ، ہزارگٹ ، چھپر ایسوٹ ،تنگی سر ، بہوپیر ،زام ویالہ سمیت ایسے لاتعداد خوبصورت اور دلکش نظاروں پر مشتمل مقامات ہیں۔

جو سیاحت کے شوقین افراد کے لیے جنت نظیر وادی کشمیر سے کم نہیں مگر دور دراز اور سہولیات سے محروم ہونے کی وجہ سے یہ علاقے سیاحوں کی نظروں اور توجہ سے اُجھل ہیں ،اُونچے اُنچے پہاڑوں سے گرتے ہوئے صاف اور ٹھنڈے پانی کے آبشار اور سرسبز وشاداب لہلہاتے کھیتوں ، باغات اور گھنے جنگلات سے گزرتے ہوئے صاف پانی کی بل کھاتی ہوئی ندیاں کسی طلسماتی کہانی کے منظر سے کم نہیں ہیں۔

ضلع موسیٰ خیل میں روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ مال مویشی ہیں قدرتی چراگاہوں کی بڑی تعداد ہو نے کی وجہ سے یہاں مال مویشیوں کی کمی نہیں ہے اور اعلیٰ اقسام کے مال مویشی موسیٰ خیل سے اندرون بلوچستان بلکہ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی ان کی فروخت سے مالداروں کو اچھا خاصا منافع ملتاہے۔

لا قانونیت یا معاشرتی رویہ؟؟؟

اس ضلع کی ایک اورخاص بات یہ ہے کہ اس کے پہاڑوں میں مختلف قسم کی معدنیات پائی جاتی ہیں ،یہاں کوئلے کے و سیع ذخائر 1980 ءمیں دریافت ہوئے مگر بدقسمتی سے یہاں کے قدرتی ذخائر سے کسی بھی قسم کا خاطر خواہ فائدہ نہیں اُٹھایاجاسکا جس کی وجہ سے پسماندگی جابجا منہ چڑھارہی ہے غربت اور بے روزگاری کے ستائے ہوئے شہریوں کی ایک بڑی تعداد اندرون بلوچستان، صوبہ پنجاب اور سندھ منتقل ہوچکی ہے۔

Khalid Hussain Columns | Artical Naikdin Khan Musakhail | History of musakhel in Urdu / Hindi | Musa Khail Balochistan, Pakistan | Muhammad Asif official

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button