بچوں میں اخلاقی و معاشرتی تربیت کا فقدان
آج کل وقت مشکل دور سے گزر رہا ہے بچوں میں عدم برداشت بڑھتی ہی جارہی ہے جس کی اہم وجہ ماں باپ کا غیر ضروری لاڈ پیار اور ابھی بچہ ہے بڑا ہوکر سمجھ جائے گا یا ابھی چھوٹا ہے زیادہ بولا تو اور کرے گا۔
اسطرح بچوں میں عدم برداشت، بدزبانی اور سخت لب و لہجہ بڑھ گیا ہے جو کہ دوسروں پر جو اِس بچے کی مخصوص سرگرمیاں نوٹ کررہے ہیں ان پر اثر انداز ہورہی ہیں، اکثر دیکھنے میں آرہا ہے کہ بچے ضد کرتے ہیں اور والدین فوری ڈھیر ہوجاتے ہیں اسطرح کا عمل بچے میں جلد بازی اور جذباتی دور پیدا کررہا ہے جو کہ اس کے لئے نہایت نقصان دے ہے جو کہ مستقبل میں بچے کو خود سر بنا دیں گا اور دوسروں منفی شخصیت بن کر سامنے آئے گا۔
کیونکہ ضد کامیابی کے بجائے نقصان کی نشانی ہے اگر والدین کی جگہ آکر دیکھیں تو والدین اپنے بچوں کی ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں بڑے سے بڑے اسکول میں تعلیم دلوانا، عمدہ سے عمدہ لباس پہنانا، کھانے میں ان کی فرمائشوں کو ملحوظ خاطر رکھنا سارے فرائض بخوبی انجام دیتے ہیں۔
لیکن بچوں کی تربیت کی طرف سے کوتاہی دیکھنے میں آتی ہے جو موجودہ وقت کا بہت بڑا المیہ ہے۔ عمدہ لباس میں مزین بچے جب ناشائستہ لہجہ استعمال کرتے ہیں تو دل کو انتہائی تکلیف کا احساس ہوتا ہے کہ آج کی نسل جو زمانہ سے قدم سے قدم ملاکر چلنے میں اپنا ثانی نہیں رکھنا چاہتی، وہیں اخلاقی تعلیم سے بے بہرہ ہے۔
یہ ذمہ داری ہر والدین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت میں اخلاقی تعلیم پر خصوصی توجہ دیں، بچوں کو سکھائیں کہ وہ اپنے بڑوں کا ادب کریں اور چھوٹوں سے محبت کے ساتھ پیش آئیں، استاد کا احترام اپنے اوپر لازم کریں، تعلیم پر توجہ دیں۔
اسکول مدرسہ ٹیوشن وقت پر جائیں، بڑوں کی ڈانٹ کے پیچھے ان کے مقصد کو پہچانیں نہ کہ اس ڈانٹ کو اپنی بے عزتی پر محمول کریں، وہیں والدین پر بھی لازم ہے کہ وہ بچوں کو ان کی اصلاح کی غرض سے تنبیہ ضرور کریں لیکن ان کا انداز ایسا نہ ہو کہ بچے اپنی بے عزتی محسوس کریں، بچوں کو ڈانٹنے کے بعد ان سے محبت و شفقت سے بات کرتے ہوئے انہیں بتایا جائے کہ انہیں جو ڈانٹ پڑی ہے، وہ کس وجہ سے، کس غلطی کی پاداش میں ہے اور آئندہ انہیں ایسا کرنے کی تلقین کرتے ہوئے ایسا رویہ اختیار کریں۔
کہ بچہ اپنی غلطی کو آئندہ نہ دوہرائے اور معمول بنا لیں کہ بچوں کو اخلاقیات کے معنی و مفہوم سمجھاتے ہوئے انہیں ایسی احادیث و واقعات سنائے جائیں جو ان کی اصلاح و اخلاقی تعلیم میں معاون ثابت ہوں، بچوں کو یہ بھی سمجھانا چاہیے کہ وہ اپنے ساتھیوں سے کیسے سلوک کریں، اپنے کھانے و کھلونوں کو شیئر کریں۔
ہم عمر اور ساتھیوں کے ساتھ بھی اچھے سے پیش آنے کی تعلیم دیں، ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ بچوں کو جو تلقین کریں، وہ آپ کے عمل میں بھی نظر آئے یعنی بچے اپنے اردگرد جو ماحول دیکھتے ہیں، اس سے زیادہ سیکھتے ہیں، یاد رکھئے کہ ایک بچہ تبھی بہترین انسان بن سکتا ہے۔
جب وہ اخلاقی تعلیم سے بہرہ ور ہو اور اس کی پوری ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے یاد رکھیئے کہ بنیادی دینی تعلیم ابتدائی عمر ہی سے بچوں کو دین کی بنیادی تعلیمات سے واقف کرایا جائے قرآن مجید کی تعلیم کا شعوری انتظام اور حلال اور حرام کے احکامات سے واقفیت فراہم کی جائے اور سات سال کی عمر سے نماز کا، اور روزہ رکھنے کے قابل عمر کو پہنچنے پر روزے کا عادی بنایا جائے۔
کم تعلیم یافتہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں مہارت رکھنے والا نوجوان
بچوں کو بالکل ابتدا سے اللہ سے تقویٰ اور اس کے سامنے تمام کاموں (اعمال) کیلئے جواب دہ ہونے کا تصور پیدا کرنا، اور ان میں یہ احساس جگانا ضروری ہے کہ اللہ ہر وقت ان کی نگرانی کر رہا ہے۔اخلاقی تربیت میں بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی اعلٰی اخلاق کا عادی بنانے کی کوشش کی جائے، کیونکہ بچپن کی عادتیں بڑے ہونے پر پختہ ہوتی ہیں۔
اس لئے ضروری ہے کہ بچپن ہی سے انھیں سچائی، امانت داری، بہادری، احسان، بزرگوں کی عزت، پڑوسیوں سے بہتر سلوک، دوستوں کے حقوق کی پاسداری اور مستحق لوگوں کی مدد جیسے اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا حامل بنایا جائے، پھر انھیں برے اخلاق مثلاً جھوٹ، چوری، گالی گلوچ اور بے راہ روی سے سختی سے بچایا جائے اوائل عمر سے ہی محنت و مشقت کا عادی بنایا جائے اور عیش کوشی و آرام پسندی سے دور رکھا جائے۔
جسمانی تربیت والدین کی طرف سے بچوں کی جسمانی نشو و نما، غذا اور آرام کا خیال رکھا جائے اور انھیں ورزش کا عادی بنایا جائے، جسمانی بیماریوں اور جائز ضروریات کو پورا کرنے کی حتی المقدور کوشش کی جائے۔چار بنیادی باتیں جن سے والدین کیلئے پرہیز کرنا لازم ہے حقیرآمیز سلوک جو کہ بچوں کی اصلاح و تربیت میں عجلت اور جلد بازی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے صبر و استقامت کے ساتھ یہ کام کیا جائے۔
بچوں کی اہانت یا تحقیر کرنے سے گریز کیا جائے۔ سزا میں بے اعتدالی بالکل سزا نہ دینا اور بہت زیادہ سزا دینا باتیں غلط ہیں بچوں کے ساتھ محبت و شفقت اور نرمی کا برتا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور معقول حد تک سرزنش کا بھی ایک مقام ہے ان دونوں رویوں میں اعتدال لازم ہے۔
بے جا لاڈ پیار سے بچوں کی ہر خواہش کو پورا کرنا، غیر ضروری لاڈ پیار انھیں ضدی اور خود سر بناتا ہے۔ اس میں اعتدال ضروری ہے۔بچوں کو ایک دوسرے پر ترجیح دینا: ایک ہی گھر میں دو بچوں یا لڑکوں اور لڑکیوں میں سے ایک کو دوسرے پر فوقیت دینا غیر اسلامی رویہ ہے۔
جس سے بہت سے نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہوکر انتہا پسندی اور انتقام پسندی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسے مریضانہ رویے سے اجتناب لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اولاد کی اچھی تربیت کرنے کی توفیق عطا فرما آمین یارب العالمین۔۔۔