کالم و مضامین

”کرپشن کے الزامات اور (ن) لیگ کا مستقبل“

پاکستانی سیاست کا بغور جائزہ لیں تو لا تعداد ایسے کردار نظر آئیں گے جو مختلف اقسام کا لبادہ اوڑھے سادہ لوح عوام کے جذبات سے کھیلنے کو ہی اپنا مشغلہ تصور کرتے ہیں۔

ہمارے معاشرہ میں کسی پر تہمت یا بہتان باندھنا انتہائی آسان کام سمجھا جاتا ہے جب کہ ہمارے مذہب میں کسی پر تہمت لگانا کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے اور اس کی سزا صرف دنیا میں ہی نہیں بلکہ روزِ محشر بھی جھوٹا الزام لگانے والوں کو سخت حساب کے عمل سے گزرنا پڑے گا۔

ہمارے سیاستدان بھی بعض اوقات بچگانہ حرکتیں کرتے ہیں لگتا ہی نہیں کہ وہ دہائیوں سے زائد سیاسی سفر میں انہوں نے کچھ سیکھا ہو بس ایک ہنر آتا ہے بیان داغ دیں بغیر سوچے سمجھے کہ اس سے ان کی پارٹی کو کوئی فائدہ ہوتا ہے یا نہیں، کسی پر الزام لگانا جیسے شہباز شریف کے وہ الفاظ ہماری تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔

جس میں انہوں نے آصف علی زرداری پر کرپشن کے الزامات لگاتے ہوئے کہا تھا کہ میں زرداری کو لاڑکانہ کی گلیوں میں نہ گھسیٹوں تو میرا نام شہباز شریف نہیں اور پھر عوام نے دیکھا کہ الیکشن گزر گیا۔

ان کی حکومت آگئی ، نہ تو زرداری کا کسی نے گریبان پکڑا گھسیٹنے کی بات تو بہت دور کی تھی۔ الزامات ثابت کرکے کیفر کردار تک نہ پہنچانا تہمت ہے۔

ہمارے ملک کے بھولے عوام 74سال سے اسی طرح کے شعبدہ باز سیاستدانوں کی کرتوتوں کا نتیجہ بھگت رہے ہیں اور ان کو سمجھ نہیں آتا کہ ملک بھڑکوں اور جھوٹی الزام تراشی سے نہیں بلکہ اعتدال پسندی کی سیاست سے چلتے ہیں۔

میاں شہباز شریف اپنی پارٹی میں شریف خاندان کی طرف سے ہمیشہ دَر پردہ کوئی ڈیل کے متلاشی نظر آتے ہیں۔ وہ فوج کے حق میں بیانات کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں اور اب بھی ہماری فوج کے جوان یا افسر شہید ہوتے ہیں تو وہ خصوصی طور پر ٹویٹ کے ذریعے ان قربانیوں کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔

وہ نوازشریف کی سیاست کے برعکس اسٹیبلشمنٹ سے اچھے تعلقات رکھنے کا تاثر دیتے ہیں۔ایسے بیانات سے وہ اپنی پارٹی کے ارکان میں ایک اعتماد اور خوش فہمی کو اجاگر کرتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر نوازشریف اپنی بیٹی کی سیاست سے ہٹ کر شہباز شریف کے مشوروں پر عمل کرتے رہتے تو شاید وہ آج یہ دن نہ دیکھ رہے ہوتے۔

شہباز شریف کے بارے اکثر کہا جاتا ہے کہ ڈیل کے ماسٹر ہیں یا لین دین اچھا کرلیتے ہیں مگر یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ وہ اپنے تمام کارڈز دکھا دینے کے عادی نہیں بس کسی طرح انہیں اقتدار کی منزل مل جائے جو لوگ مشرف کے دور میں ان کی جلا وطنی دیکھ چکے وہ اندازہ لگارہے تھے کہ میاں برادران کی سیاست اب دفن ہوچکی ہے مگر پھر ان کی وطن واپسی ہوئی اور بے نظیر بھٹو کے صدقے ان کو وطن واپس آنے کا موقع مل گیا۔

صحافیوں نے ان سے بات چیت میں ملک کا آئندہ وزیراعظم بننے کی پیشکش کی مگر نہ جانے پھر کیا ہوا کہ بات نہ بن سکی۔ اس بیان سے انہوں نے یہ تاثر دیا کہ پاکستان میں وزیراعظم ڈیل کے ذریعے بنتا ہے اور ان کی اچانک پاکستان واپسی اسی غلط فہمی کا نتیجہ تھی جس کی وجہ سے غالباً وہ پچھتا رہے ہیں۔

حکومت کی طرف سے16 ارب کی منی لانڈرنگ کا ایک اور ریفرنس دائر کردیا گیا ہے حکومتی ترجمانوں کے مطابق جو پیش گوئی کی جارہی ہے کہ نیب کے مقدمات میں وہ بری طرح پھنس چکے ہیں اور وہ ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر جیل جارہے ہیں۔ عمران خان اپنے فیصلوں میں لچک پیدا نہیں کررہے اور کئی ایک فیصلوں میں وہ شاید ایمپائر کے خلاف جارہے ہیں۔

دوسری طرف نوازشریف کی مکمل خاموشی کا پس منظر کہ یہ فیملی کسی اچھے وقت کا انتظار کررہی ہے اور پھر کسی معجزے کی منظر ہے عوام کو صرف باتوں سے خوش رکھ کر بہلایا جارہا ہے اور ان کے اراکین میڈیا کو موثر طریقے سے استعمال کررہے ہیں اور تو اور ان کی ترجمان بہت دبنگ ہے ہمیشہ میڈیا میں میاں فیملی کے خلاف کوئی بیان آئے تو فوراً تردید کردیتی ہے۔

میں مریم اورنگ زیب کو فل مارکس دیتا ہوں کہ انہوں نے حقِ نمک ادا کردیا جس دلیری اور بہادری سے وہ عمران خان اور اس کی پارٹی کو آڑے ہاتھوں لیتی ہے وہ تو جھوٹ بھی سچ لگتا ہے اس کی میڈیا ٹیم میاں نوازشریف کی فیملی کی تمام کرپشن کے الزامات کو سیاسی قرار دینے میں کافی حد تک کامیاب رہے ہیں۔

امریکی صدر نکسن اور دین ِاسلام

جس کی بنیادی وجہ عمران خان کی ٹیم کی ناتجربہ کاری اور نااہلی ہے۔ عمران خان کی پارٹی فی الحال آن گراو¿نڈ کچھ ایسی پراگرس بھی نہیں دے سکی جس سے عوام مطمئن ہو کہ وہ ان دونوں لوٹ مار کرنے والی جماعتوں کا نعم البدل ہے اس کی بنیادی وجہ بے دریغ قرضوں کا استعمال اور ملکی معیشت کا جنازہ ہے۔

جو نواز لیگ نے گزشتہ پانچ سالوں میں ملک کو دیا کیونکہ عمران خان کے دھرنے نے جوو طوالت پکڑی اور جس طرح ان کے خلاف طاہر القادری سرگرم عمل رہے اور پانامہ سیاست کا ہتھیار ان کے خلاف استعمال ہوا تو انہوں نے عوام کو بے دریغ رعایتیں دیں میٹرو اور اورینج ٹرین کے بھاری بھر کم منصوبے چلا کر یہ تاثر دیا کہ نوازشریف اور ان کی پارٹی ملک میں ایک بہت بڑا اصلاحاتی اور معاشی پروگرام لارہی تھی۔

Corruption of PML-N Video

جس طرح روپیہ اور ڈالر کو مصنوعی طور پر قائم رکھا گیا اور برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ کرنے میں نواز لیگ ناکام ہوگئی اور درآمدات میں ایک خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں ملا اور ملکی کرنٹ اکاونٹ خسارہ عمران حکومت کیلئے ایک ڈراونا خواب بن گیا۔

لہٰذا موجودہ صورتحال میں (ن) لیگ صرف اور صرف پورے پانچ سال تک بحران میں مصروف رکھنا چاہتی ہے تاکہ جب بھی الیکشن ہوں تو وہ عمران خان کی کارکردگی کو بہانہ بنا کر دوبارہ برسرِ اقتدار آجائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button